ایک افغانی آفیسرکی انسانی سمگلنگ کی داستان۔

اابھی حال ہی میں ایک خبررساں ادارے کےساتھ ایک آفغانی آفیسرغیرقانونی طریقہ سےیورپ جانے کی کربناک روداد بیان کرتےہوئے اس افغان آفیسرکاکہنا تھا کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کےخاتمہ کےبعد اس نےیورپ جانے کی کوشش شروع کی۔افغان آفیسرکےمطابق اس نےپہلے انسانی سمگلروں کو پانچ ہزار ڈالر دےکرانکو روس کےشہر ماسکو تک پہنچانے کی ضمانت لی۔ماسکو پہنچ کرآگے یورپ کےشنجن زون کےپہلے ملک پولینڈ کی سرحدپارکرانےکےلئےمزید سات ہزار ڈالر پر بات پکی کرلی۔

یہی افغان آفیسراپنا نام احمد ظاہر کررہاتھا جبکہ مزید کہانی انکی زبانی کچھ اس طرح ہے۔وہ کہتےہیں کہ ہم نے ماسکو سے بیلاروس اور یورپ کو پہنچانےکے لیے ایک اور بروکر سے سات ہزار ڈالر میں بات چیت کی۔ ایک طویل سفر کے بعد میں افغانوں کے ایک گروپ کے ساتھ بیلاروس پہنچا۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ صدر کی سیکورٹی ایجنسی کے سابق افسران اور سپاہی بھی تھے۔کچھ عرصے کے بعد اسے اسمگلر نے بیلاروس کے مرکز سے پولینڈ کی سرحد کے قریب سرحدی ریاست “بریسٹ” منتقل کر دیا اور کہیں چھپا کر رکھا۔بریسٹ بیلاروس کاپولینڈ کی سرحدپر سب سےآخری شہرہےجبکہ یہاں سےپولینڈ کا دارالخلافہ وارسا تقریباًدو سو کلومیٹر کی دوری پرہے۔وہ کہتاہےکہ میں نے اس سرحدی علاقے سے پولینڈ جانے کی 9 بار کوشش کی لیکن مجھےہربار پکڑکر واپس کر دیا گیا۔ میں 5 بار پولینڈ گیا، لیکن ہربار پکڑاجاتاہوں اور پولش پولیس مجھے پھر بیلاروس واپس بھیج دیتی ہے۔

افغان آفیسرکی ٹوٹی انگلیاں۔

یہاں سمگلر 10 افراد کا ایک گروپ بناتا ہے اور ہر گروپ کے ساتھ ایک یا دو گائیڈ ہوتے ہیں اور پھر پولینڈ کی سرحد کی طرف بڑھتے ہیں۔ ہم جنگل اور برف میں 3 گھنٹے پیدل چل کر زیرو پوائنٹ پرپہنچتے ہیں۔بیلاروس سےپولینڈ کی سرحد کو عبور کرنےکے لئےیا سمگلرایک میٹرگڑاھا کھودتےہیں جس کے زریعہ خاردار تار اور کنکریٹ سےبنی زیرزمین ان روکاوٹوں کو عبور کرکےپولینڈ داخل ہوجاتےہیں۔یااکثراوقات سمگلرحضرات اپنےساتھ سیڑھیاں لیکر انکےزریعہ ان خاردارتاروں کو عبورکرتےہیں۔چونکہ سردی حد سے زیادہ ہوتی ہےاس وجہ سےہرساتھی نڈھال ہوتاہےجسکی وجہ سے ہمیں بھاگنےمیں انتہائی دقت رہتی ہے۔دوسری بات جب ہم سیڑھیوں کےزریعہ خاردارتارکوعبورکرتےہیں تو پولیش پولیس کو پتہ چل جاتاہے اور اسی طرح وہ ہماری تلاش میں ان جنگلوں میں اپنی گاڑیوں،کتوں اور انتہائی تیزبرقی ٹارچوں کےزریعہ ڈھونڈنے میں لگ جاتےہیں۔ایک طرف ہم نےبیلاروس میں کئی گھنٹے پیدل سفرکیاہوتاہےجبکہ دوسری طرف بارڈر میں روکاوٹوں کو عبورکرنے میں ہماری انرجی ضائع ہوجاتی ہےجبکہ اوپر سےسردی ہماری حالت بےحدخراب کردیتی ہے۔جس کی وجہ سےہم آسانی سے پولیش پولیس کےہاتھوں میں چلےجاتےہیں۔

بریسٹ نامی شہر۔

پولیس کےہاتھوں میں آسانی سےجانے کی دوسری اہم وجہ یہ ہوتی ہیں کہ پولینڈ کی سرحد سےآگےجانےکےلئےنہ ہمارےساتھ کوئی رہنما ہوتاہےاور نہ ہمیں یہاں سےکوئی واقفیت ہوتی ہے۔اس لئےبھاگتےبھاگتےہم پکڑےجاتےہیں۔

آفغان آفیسراحمد کہتاہےکہ آخری بار، ایک ہفتہ قبل، میں چار دیگر افغان فوجیوں کے ساتھ پولینڈ گیا تھا، لیکن پکڑنےکےبعد پولیس کی طرف سے مار پیٹ اور بدسلوکی کے بعد، میں نے ان کو ہمیں واپس بیلاروس بھیجنےکاکہا۔میں نے پولیس کو اپنا ڈیوٹی کارڈ بھی دکھایا لیکن انہوں نے پرواہ نہیں کی۔

“جب بھی وہ پولینڈ کی سرحد عبور کرتے، پولیس کی طرف سے ان پر تشدد کیا گیا اور پتھراؤ کیا گیا اور پھر انہیں بیلاروس واپس بھیج دیا گیا۔ جنگل میں آدھا میٹر برف پڑی ہے اور موسم بہت سرد ہے۔ سردی سے ہمارے کچھ دوستوں کے ناخن گر گئے۔ میرے پاؤں کی بھی یہی حالت ہے۔ میں نےاس سرد موسم میں جنگل کے راستہ میں اپنی آنکھوں سے یہاں چار پانچ لاشیں دیکھی۔ لیکن میں مدد کے لیے کچھ نہ کر سکا۔کیونکہ ہم خود ایسی حالت میں تھےکہ ہمارےساتھ کچھ بھی نہیں تھااور نہ ہم ان لاشوں کوشہرلےکےجاسکتےتھےاور نہ ان لاشوں کی شناخت ممکن تھی کہ یہ کون ہیں اور کہاں سےآئےہیں۔زیادہ ترافغانی لوگ ہی ان راستوں سےجاتےہیں۔ممکن تھایہ ہمارےافغان بھائیوں کی لاشیں تھیں۔

پولیس سرحد کی نگرانی اور گشت کرتےہوئے

شدید سردی کی وجہ سے احمد کے ہاتھ شدید زخمی ہو ئےتھے۔احمدکہتاہےکہ جب میں پولینڈ کے علاقے میں داخل ہوا تو پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا اور میری آنکھوں پر گیس کا چھڑکاؤ کیا، جس سے میری آنکھیں دو گھنٹے تک کام نہ کر سکیں۔ پولیس نے مجھے بہت مارا اور میرے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔ انہوں نے مجھ سے دستاویزات اور دیگر چیزیں لے لیں۔ تھوڑی دیر کے بعد، وہ ہم سب کو واپس جنگل میں لے گئے اور وہاں پولیس نے ہمیں واپس بیلاروس کی سرحد کے دوسری طرف چھوڑ دیا۔

پولیس جان بوجھ کر ایسا غیر انسانی سلوک کر رہی ہے تاکہ ہم مر جائیں۔ایک بار جب پولیس نے مجھے گرفتار کیا تو پولینڈ پولیس نے ہمیں بیلاروس کےبجائےتکلیف دینےکےلئےدور لتھوانیا کی سرحد کے قریب ایک جنگل میں چھوڑ دیا اور اس نے ہمیں واپس نہ آنے کو کہا۔

بیلاروس۔

میں نے کئی سالوں تک اپنے ملک کی خدمت کی، لیکن آخر کار مجھے ایسی قسمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہاں ہمیں انسان نظر نہیں آتا اور کوئی ہمیں پوچھنے والا نہیں ہے۔

اب یہاں سےبیلاروس جانا جان جوکھوں میں ڈالناتھا۔مرتاکیانہ کرتااب یہاں سےاس جنگل اور برف میں ہم نے بیلاروس کی راہ لےلی۔رات کو ٹھہرتےتھے۔جبکہ پہرہ دینےکےلئےباری باری ہر بندہ ڈیوٹی دےدیتاتھا۔ لتھوانیا کے سرحدی علاقے سے جنگل اور برف میں دو راتیں اور ایک دن چلنے کے بعد، ہم پولینڈ لے جانے کے لیے بیلاروس واپس آئے۔

میرا تمام افغان خاندانوں کو پیغام ہے کہ اپنے بچوں کو اسمگلنگ کے ان راستوں پر مت چھوڑیں اور سمگلروں کے جھوٹ پر یقین نہ کریں

تحریر؛نجات خان مہمند

1 comments
1 like
Prev post: اٹلی کےسیسلی کےایک یونین کونسل کااخوال۔Next post: نجی سیاحتی ٹیموں کی سیروتفریح کی نئی سپاٹس کی دریافت اور سیاحت کی فروغ کےلئےگراں قدرخدمات۔

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *