نجی سیاحتی ٹیموں کی سیروتفریح کی نئی سپاٹس کی دریافت اور سیاحت کی فروغ کےلئےگراں قدرخدمات۔

۔

کچھ کاروبار اور صنعتیں ایسی بھی ہیں جو نہ صرف مالی لحاظ سےفائد مند ہوتی ہیں بلکہ اسکےکچھ معاشی اور سماجی فوائد بھی ہوتے ہیں۔ان میں سیاحت وہ واحد صنعت ہے جو کسی خطے کی ثقافت، تہذیب اور مذہبی پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہےاور ساتھ میں یہ روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔

چترال کےانتہائی شمال میں۔ 

ہمارے ملک میں سیاحت کےان گنت مواقع میسرہیں مگربدقسمتی یہ ہےکہ حکومت اس طرف ایک حدسےآگے توجہ نہیں دےرہی۔یہی وہ وجہ ہےکہ یہاں اس صنعت نےکافی کم ترقی کی ہے۔سیاحت کےفروغ میں حکومت سےزیادہ نجی سیاحتی ادارےکام کررہی ہیں۔پاکستان کی سیاحتی صنعت میں جیسا کہ میں طویل عرصے سے دیکھ رہا ہوں، قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سیاحت کی فروغ میں جہاں دیگرنجی ادارے کام کررہی ہیں وہی پر ایک ٹرپ ٹریل نامی ادارہ بھی بہترین طور پر اپنی خدمات سےسیاحوں کونواز رہی ہے۔

ان خدمات میں ایک یہ کہ ٹرپ ٹریلز ٹیم نے ملک کے اندر کچھ غیر دریافت شدہ شمالی علاقہ جات کی کھوج کی اور پھر انتہائی کم وسائل  سے ٹرپ ٹریل نے سیاحوں کو ان مقامات کی سیر کرانے کے مواقع فراہم کیئے۔اس طرح کےخدمات کی ایک زندہ مثال تاجکستان کی سرحد کے قریب چترال میں بروغل کے علاقے کی ہے جسے ٹرپ ٹریل ٹیم نے پہلی بار دریافت کیااور یہ واحد ٹرپ ٹریلز ہی ہے جو سیاحوں کو بروغل تک رسائی اور خدمات فراہم کر سکتی ہے جو کہ ایک غیر آباد اور ناقابل رسائی جگہ ہے۔یہاں واخان کی مشہورپٹی بروغل سےملتی ہے جبکہ مشرق کی طرف یہاں سےگھوڑوں اور خچروں پر چل کردریائےیارخون کا منبع کرومبرجھیل آتاہے۔ٹرپ ٹریلز ہی کی بدولت مجھےبھی یہاں کے واخی لوگوں کےساتھ ایک رات گزرنےکاموقع ملا ہے۔

واخان کےقریب بروغل اورکرومبرجھیل کےدرمیان ایک چھوٹی جھیل۔

 پاکستان میں سیر و تفریح کے بے شمار مواقع موجود ہیں لیکن ان مقامات تک انفراسٹرکچر اور رسائی کے ساتھ ساتھ وہاں رہائش اور کھانے پینے کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن ان مسائل کے باوجود ملک کے دیگر دور دراز علاقوں سے آنے والے سیاحوں کو ٹرپ ٹریلز نےان علاقوں تک نہ صرف رسائی ممکن بنائی بلکہ ان کےلئےرہائش وغیرہ کابھی اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر کمراٹ کا علاقہ جو ابھی تک سیاحوں کی توجہ کا مرکز نہیں بناتھا اور  نہ وہاں تک کوئی آمدورفت تھی اور نہ ہی رہنے کے لیے کوئی اچھی جگہ تھی۔ان مسائل سےنپٹنےکےلئے ٹرپ ٹریل نے وہاں اپنا ایک اعلیٰ معیار کا ہوٹل بنایا اور دوسرے سیاحوں کے ساتھ ساتھ کمراٹ میں ٹھہرنے کے لیے ایک بہترین جگہ بھی فراہم کی۔

ایک واخی خاتون کےساتھ چائےپیتےہوئےہمارےگائیڈ بھی موجود۔

 اُس عرصہ میں بہت سے سیاح کمراٹ کی سیر سے ہچکچا تےتھے، لیکن ٹریپ ٹریل نے سیاحوں کو وہاں کی ثقافت سے آشنا کرانے کے ساتھ ہی ساتھ مقامی باشندوں کو سیاحوں کی یہاں آمد اور مقصد کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔اس وجہ سے نہ صرف ملک کے طول و عرض سے بلکہ بین الاقوامی سیاح بھی کمراٹ کے علاقے اور ثقافت کو دیکھنے میں گہری دلچسپی لینے لگے۔

اسکے علاوہ بھی اس ٹیم نےکمراٹ کےعلاوہ دیر میں دیگر انتہائی خوبصورت قدرتی سپاٹس دریافت کئیےہیں مگروہاں تک سڑک تو درکنار پیدل جانےکا بھی کوئی راستہ نہیں ہےاور نہ وہاں کسی قسم کی کوئی رہائشی سہولت میسر کی جاسکتی ہے اور نہ وہاں مقامی لوگوں کےرہائش کےکوئی آثارموجود ہیں۔دوسری بات یہ سپاٹس عمومً پاک افغان بارڈر کےآس پاس ہونے کی وجہ سےیہاں سیاحوں کی باحفاظت رسائی مستقبل قریب میں ممکن دکھائی نہیں دےرہی مگر پھر بھی اس ٹیم کی کاوشیں جاری ہیں۔

 پاکستان میں سیاحتی مقامات کے متعلق معلومات کی کمی ہمارے سیاحوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔  دوم سیاحت یہاں بھی بہت مہنگی ہے، لیکن ٹرپ ٹریلز نے متوسط طبقہ کےلئےسیاحت کو ممکن بنایا اور ملک کے تمام حصوں سے آنے والے سیاحوں کو گروپس میں معلومات اور مواقع فراہم کیے ہیں۔  ٹرپ ٹریل نے یہاں کی سیاحت کو اس شکل میں ایک نئی جہت دی ہے کہ مختلف طبقے کے لوگوں کو ان مقامات کی اجتماعی طور پر بہت کم خرچ اور اچھی سہولیات کے ساتھ دیکھنے کے یکساں مواقع فراہم کیے ہیں۔

وادیِ بروغل۔

 ان کوششوں کی وجہ سے ہماری سیاحت کی صنعت حکومتی سرپرستی کے بغیر بھی بین الاقوامی سطح پر شناخت حاصل کر رہی ہے۔  جس سے بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ بھی حاصل ہوتی ہے جبکہ اس سے ملک کو بہت زیادہ آمدنی ،روزگار اور ملازمت کےمواقع بھی ملتےہیں۔

 اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ٹرپ ٹریلز کی سرگرمیوں نے ملک میں اور بیرون ملک بھی سیاحت کو فروغ دیا ہے جو کہ موجودہ حکومت کا فرض ہے۔

 میرے نزدیک سیاحت کے فروغ میں ٹرپ ٹریلزکی کچھ بڑی کاوشیں ہیں اور وہ اس طرح  سے کہ ہمارے ملک کے شمالی علاقوں میں کچھ علاقے اور زبانیں غیر دریافت شدہ تھیں جو کہ ٹرپ ٹریلز جیسی ٹیموں ہی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔یہ اس طرح ممکن ہوئی کہ ٹرپ ٹریلز اور اس جیسے سیاحتی ٹیموں نے ان علاقوں کے کچھ مقامی لوگوں کو اپنی ٹیموں کا حصہ بنایا۔ ان مقامی لوگوں کی وجہ سے سیاح انکےعلاقوں سےواقف ہوئے اور ان سیاحوں کے لیے وہاں رہنا آسان ہوگیا۔کیونکہ زبان کی جو روکاوٹ تھی وہ دور ہو گئی۔مقامی گائیڈز کی وجہ سےاب سیاحوں کو ان مقامی باشندوں کے ساتھ گھل مل کر انکےعلاقوں کی اچھی طرح سیر کرنےکےساتھ ساتھ وہاں کے رسمی تہواروں اور ثقافتی تقریبات میں بھی شرکت کرناآسان ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرپ ٹریلز ٹیم کو اب قانونی طور پر چترال کے کالاش لوگوں کی روایتی اور مذہبی تقریب چلم جُش تک نہ صرف رسائی ممکن ہےبلکہ اس ٹیم کےسیاح اس میں شرکت بھی کرسکتےہیں۔

مارموٹ نامی جانور۔

 اس کے علاوہ ٹرپ ٹریلزٹیم اور ان کی خدمات ملک عکے دیگر سیاحتی مقامات جیسے سندھ اور بلوچستان کے صحراؤں کی سیر کرنے میں آگے ہیں۔

 ٹرپ ٹریلز کے کامیاب سیاحتی دوروں اور ملک کے اندر سیاحتی مقامات کےعلاوہ  ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں تک رسائی کے لیے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی مل رہی ہے۔

 ٹرپ ٹریل اب قومی سطح پر اعلیٰ معیار، اعتماد، بھروسے، رہنمائی اور عمدگی کے لیے پہچانا جانے والا نام ہے۔

تحریر؛ نجات خان مہمند۔

0 comments
2 likes
Prev post: ایک افغانی آفیسرکی انسانی سمگلنگ کی داستان۔Next post: ڈنمارک کےشہرکوپن ہیگن کےایک میونسپلٹی جس کو ایک الگ ملک کادرجہ ملاہے۔یہاں افیون کی فروخت قانونی جائزہے۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *