خاموش صاحب کی تحریک بھی خاموش ہوچکی ہے۔

تحریر؛نجات خان مہمند۔

افضل خاموش صاحب کی اپنی مزدور کسان تحریک اب خاموش ہوچکی ہے مگر انکی تحریک کا دوسرا دھڑا اگرچہ نظریاتی طورپرخاموش ہواہےمگر سیاسی طور پر اپنی جوبن پہ ہےاور حال ہی میں مئیرتنگی بھی اسی دھڑے سےمنتخب ہوچکاہے۔

افضل خاموش نےاگرچہ مزدور کسان تحریک کو اپنی عمر کا پچاس سال سےزائد عرصہ دیااور بےشمار قربانیاں دیں مگر چونکہ تحریک اپنی مقاصد پورےہونےپر خودبخود مرجاتی ہے اور یہی وجہ ہےکہ جب سےبےدخلیاں ختم ہوئیں ہیں اور خوانین نےکچھ حد تک اپنی زمینیں حاصل کیں اور کچھ کا بہت کم معاوضہ مزارعین اور کسانوں نے ان خوانین کو ادا کیاہے تب سے مزدورکسان پارٹی نے دم توڑاناشروع کیا۔

خاموش صاحب نےاپنی پچاس سالہ تحریکی زندگی پر ایک مفصل کتاب لکھ دی جو وقت کا تقاضہ تھا اور یہ تقاضہ اس لئےتھا کہ نہ صرف اس تحریک سےجُڑے نوجوان نسل بلکہ دوربیٹھےہم جیسوں کوبھی علم ہوجائےکہ ماضی میں اس تحریک کےضمن میں کیاہواتھااور نیز یہ کہ اس تحریک سےافضل بنگش جیسےانقلابی اور کہنہ مشق سیاستدان اور رہنما کاکیاتعلق تھا اور یہ کہ یہ لوگ کارل مارکس اورمارکسزنظریہ کےحامی کیوں کریاد کئیےجاتے تھے۔یہی لوگ بھی ملک میں سوشلزٹوں کی طرح یکساں نظام معیشت لاگوں کرناچاہتےتھےاور جاگیردارانہ نظام کےخلاف تھے۔

افضل خاموش نےاپنی سوانح عمری”جدوجہد آساں نہ تھی“ لکھ کر اس تحریک سےوابستہ لوگوں پر احسان کیااور اپنی تصنیف کوایک ماہر لکھاری کی طرح لکھ کر ہم جیسے لوگوں کو پڑھنےکےلئے آسان بنایاہے۔خاموش صاحب نےہرطرف سےتحریک کےماضی کے کارناموں سےانصاف کیاہے مگر دوسری طرف شمالی ہشتنگر میں اس تحریک کےایک جاندار کردار اور ایک بڑے قبیله مہمند سے تعلق رکھنےوالے کردار ”افضل بنگش گروپ“ کا ذکر نہ کرکےنا انصافی کی ہے۔بلکہ اس دھڑے کو غدار ٹھہرانے سےبھی گریز نہیں کیاہے۔یہاں جو تصویر خاموش صاحب نےپیش کی ہے وہ زرہ دھندلی ہے اس وجہ سے تصویر کادوسرا رخ بھی دیکھنا ضروری ہے۔

شمالی ہشتنگرمیں خاموش صاحب کےعلاوہ دوسرا دھڑا افضل بنگش تھا جسکاسربراہ محمد شاہ علی مہمند تھا اور انکےساتھ لوگ بھی زیادہ رھےاور ہر بیدخلی میں اپنے قبیلہ کےساتھ میدان میں ڈٹارہتاتھا۔چونکہ انکےساتھ خاموش صاحب کےاختلافات تھےاس وجه سے خاموش صاحب نے انکا ذکربہت کم کیا ہے مگر پھر بھی افضل خاموش صاحب نے اس تحریک سےجڑی یادوں کو 1971 سےاب تک قلم بند کرکےادب کی دنیامیں اسکو سراہا جائیگا۔

اس تحریک سےوابستہ دوسرا دھڑا بنگش گروپ جسکو بعد می محمد شالی گروپ کہاجانےلگااب بھی بہت حد تک فعال ہےمگر اس تحریک کا کوئی مقصد تھا اور وہ تقریباً پورا ہوچکاہے۔مگر جب کسی تحریک کےاغراض و مقاصد پورے ہوجاتےہیں وہاں پر تحریک دم توڑ دیتی ہے لیکن محمدشاہ علی گروپ نےسیاست میں قدم رکھ کر تحریک کو مرنےکےبجائےایک اور لحاف یعنی سیاست کی لحاف میں اوڑھ لیا جس کا پہلا نتیجه 2021 کےبلدیاتی انتخابات میں تحصیل ناظم کی جیت کی شکل میں مل گیا۔لیکن کچھ غلط فیصلوں کی وجہ سےانکی ووٹ بینک میں کمی آئی اور اگر سیاسی طور پر اس دھڑے نےاپنی بالغ نظری نہ دکھائی تو آئندہ کےلئےانکا نام و نشان اگر مٹ نہ سکا تویہ صرف نام تک رہ جائیں گے۔

0 comments
3 likes
Prev post: رونگھٹے کھڑےکرنےوالی انسانی سمگلنگ کی داستانیں۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *