رونگھٹے کھڑےکرنےوالی انسانی سمگلنگ کی داستانیں۔

 

نجات خان مہمند۔۔۔۔ منزلوں کی جستجو سےایک اقتباس          چونکہ صوبہ سیسلی اٹلی سے جدا ایک الگ جزیرہ ہے جو بحیرہ روم میں واقع ہے اس لئے یہ براعظم افریقہ کے سمندروں کے قریب ہونے کی وجہ سے افریقی ممالک اور عمومً لیبیا سے غیرقانونی طور پر آنے والے مہاجرین کا سب سے پہلا پڑاو ہوتاہے۔کئی عشروں سے افریقہ اور ایشیاء کے پسماندہ ممالک کے لوگ بہتر معاش اور اچھی زندگی گزارنے کی غرض سے غیرقانونی طریقوں سے یورپ آتے ہیں۔ان غیرقانونی راستوں میں سے ایک خطرناک راستہ لیبیا سے سمندر کے راستہ اٹلی آنا ہے۔لیبیا سے زیادہ تر افریقی ممالک جیسے سینیگال،کینیا،نائجیریا،تونیسیااور صومالیہ وغیرہ کے لوگ غیرقانونی طوریورپ اور خاص کراٹلی ان سمندری راستوں سے آتےہیں۔جب میں نے یہاں کچھ عرصہ گزارا تو ہماری ملاقاتیں یہاں آئے ان مہاجرین سے ہوئی جو ان پرخطرسمندری راستوں سے جان پرکھیل کر آئےتھے۔یہ لوگ کہتے تھے کہ لیبیا میں ایجنٹ پہلے ہمیں ایک بڑی کشتی کے زریعہ اٹلی جانےکےلئے قسمیں کھاکرراضی کرلیتےتھے۔ان کی بات مان کر جب ہمیں ایک بڑی کشتی میں سوارکرنے کےبعد تھوڑا آگےجاکرعین سمندر کے بھیچ دوسری چھوٹی ناکارہ قسم کی کشتی میں منتقل کرلیتےتھےتو اس وقت اگر کوئی انکارکرتا تو ان کے ساتھ سختی سےپیش آتےتھے ۔حتیٰ کھبی کھبار ایجنٹ ان مسافروں کو چاقومارکر سمندر میں پھینک دیتے تھے۔یہ لوگ کہتے تھےکہ یہ کشتیاں بہت چھوٹی ہوتی تھیں جس میں گنجائش سےزیادہ بلکہ دوگنا اور تین گنا سواریوں کوبھٹاتےتھے۔

                مردان سے تعلق رکھنےوالے ایک ساتھی ابراھیم نے لیبیا سے اس راستہ پر آتے ہوئے اپنی ایک پرخطرداستان مجھے بتائی۔ابراھیم کا کہنا تھا کہ میں بھی مخنت مزدوری کی خاطر  2010میں پاکستان سے لیبیاآیا۔جب 2011میں لیبیا میں حالات خراب ہوئےاور خانہ جنگی شروع ہوئی تو وہاں ہمارا جینا مشکل ہوگیا۔کچھ افریقی اور پاکستانی لوگ اپنےاپنے ملکوں کو چلےگئے جبکہ کچھ لوگوں نے سمندر سے یورپ کا رخ کیا۔ابراھیم نےکہا کہ میں اور میرے ضلع دیر کے ایک اور دوست پیرمحمد نے بھی لیبیا سے یورپ جانےکاارادہ کرلیا۔اس نے کہا کہ ہم نے ایجنٹ سے بات کی اور انکوپیسے دئیے۔ایجنٹ نے انکو جانےکےلئے جگہ،دن اور تاریخ بتائی۔وہ کہہ رہاتھا کہ جب وہ مقررہ وقت آگیا توہم ایجنٹ کے مقررکردہ جگہ پہنچ گئے۔یہ افریقی ایجنٹ ہمیں وہاں سے دور سمندر کے کنارے ایک گھر لےگئے۔وہاں دوسرے افریقی ممالک سے تعلق رکھنےوالےلوگ بھی تھے۔خیر تیس چالیس بندوں کا ایک گروپ بن گیا تو اس وقت ایک یا دو بندوں نے یورپ جانے سے انکارکیا۔مگر ایجنٹ نے انھیں واپس اس جگہ سے جانے سے سختی سے منع کرکےکہا کہ اگر آپ یورپ نہیں جاتےاور یہاں سے واپس ہوئےتوپھر پولیس کو ہمارے ٹھکانےکا پتہ چل جائیگا جو ہمارےلئےبہت خطرناک ہے۔خیر وہ دو تین بندےبضد رہے کہ اسی اثنا ایجنٹ اور انکے ساتھیوں نے انکی کنپٹیوں پر اے۔کے47بندوقیں تان کر انکو جان سے مارنےکی دھمکی دی۔ایجنٹ نے صاف کہہ دیا کہ یا یہاں آپکو مرنا ہوگا یا یورپ جاناہوگا۔مرتا کیا نہ کرتا۔تین دن بعد رات کے وقت ایک بڑی کشتی لائی گئی اور سارے لوگ اس میں سوارہوگئے۔جب کشتی روانہ ہوئی تو دور جاکر جب خطرہ ٹھل گیا تو وہاں کھڑی ایک چھوٹی کشتی میں لوگوں کو منتقل ہونے کا کہاگیا۔جو بندہ بات نہیں مانتا انکی پیٹ میں چاقو ڈال کر سمندر بُردکرنےکی دھمکیاں دی گئیں۔بیچارے تمام سوار لوگ اس بڑی کشتی سے چھوٹی کشتی میں منتقل ہوگئے۔ابراھیم کے مطابق انکی کشتی سمندر کے ان خونخوار موجوں میں ستائیس گھنٹے سفر کرتی رہی کیونکہ وہ راستہ بھول گئےتھے۔وہ کہہ رہاتھا کہ ہم کو پتہ نہیں چل رہاتھا کہ ہم کس سمت جارہےہیں کیونکہ ہمیں صرف اور صرف پانی نظرآرہاتھا۔ اس غم و الم کی فضا میں پچھلےستائیس گھنٹوں سےہم نے نہ کچھ کھایاتھا نہ پیاتھا جبکہ موت ہر لمحہ ہمیں خوش آمدید کہتی سر پر کھڑی نظر آرہی تھی۔نہ کسی قسم کی آبادی، جنگل اور نہ آدم نہ آدم زاد کا پتہ چل رہاتھا۔نہلے پہ دہلہ یہ کہ خوف کی اس سماء میں کھبی کھبی بڑی مچھلی ہماری چھوٹی سی کشتی کےقریب گزرکرہمیں موت کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھاتی تھی۔

            اس طرح کشتیوں پر سوار ایک آدھ ایجنٹ یا کشتی چلانے والےاٹلی کے ریسکیوں والوں کی رابطہ نمبر ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔اور جب سگنلز کام شروع کرتےہیں تو یہ ایجنٹ اپنی حیثیت چھپاکرایک مہاجر کی حیثیت سے انکو کال کرکےبچانےکےلئےمدد مانگتے ہیں۔عمومً اسی طرح ہوتاہے کہ اٹلی کی پولیس اور ریسکیوں کو جب بھی ایسی کال موصول ہوتی ہے تو وہ مددکےلئے پہنچ جاتےہیں۔

            اسی طرح ابراھیم کے مطابق ہم سے بہت دور ایک بڑی سمندری شپ گزر رہی تھی۔ہم نے انکو بہت اشارےکئیے۔ جب انکی نظر ہم پرپڑگئی اور ہمیں خطرے میں دیکھا۔تو فوراً انھوں  نے اپنی جہاز کی رفتارکم کرکے رک گئے۔ہم ان کے قریب آگئے۔تو جہاز سے ہمیں ایک رسی پھینک دی گئی۔وہ کہہ رہاتھا کہ ہم نے رسی پکڑی اور انکے پیچھےپیچھےچلنےلگے۔آخر کار اٹلی کے ریسکیوں والےآگئے اور وہ ہمیں قریبی جزیرہ لمپادوزہ لےگئے اور وہاں سے پھر سیسلی کے کلتانسیتہ لےآئے۔

0 comments
3 likes
Prev post: په رحمان بابا دا تحقیق په اول ځل یو لیکوال طارق خلیل پیښور کړے دے ددی نه وړاندی پری داسی تحقیق چا نه ده کړے زکہ چہ طارق خلیل صاحب د تپہ مومند ہرہ وڑہ قبیلہ او محلہ پیژنی او د تپہ مومند ٹول لیکوالانو سرہ ئےپہ مرکےکړ‎ےدی۔Next post: خاموش صاحب کی تحریک بھی خاموش ہوچکی ہے۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *