ایک سرپھراقبائلی لیڈر۔۔۔ملاپاویندہ

 

تحریر؛نجات خان مہمند۔

ہماری قبائلی پٹی نےہمیشہ استعماری اور بیرونی طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کےلئےایک سےبڑھ ایک سرپھراجنگجو کو جنم دیاہے۔ان غازیوں اور لیجنڈز میں جہاں جندول امراخان، غازی نجم الدین ھڈہ ملا،ایپی فقیر،ایمل خان مہمند، دریاخان آفریدی اور باکوخان واحمدخان کےعلاوہ بےشمارسرخیل لشکر کےنام شامل ہیں وہاں ان میں ملا پاویندہ کےنام سےمشہور محی الدین محسود بھی ایک دلیراور نڈر قبائل کاایک جنگجوہوگزرا ہے۔ملامحی الدین المعروف ملا پاویندہ کاتعلق جنوبی وزیرستان سےتھااور ان کو اس وقت شہرت ملی جب اس نے انگریزکے خلاف وزیرستان پرچڑھائی کےلئےمیدان کارزارمیں کودپڑنےکا اعلان کیا۔اپنی قوم محسود کےعلاوہ داوڑ، وزیر اور بیٹنی سب اقوام نےملاصاحب کی آواز پر لبیک کہا۔یہ قبائل ہمیشہ سےبڑے سے بڑے اور طاقتورسےطاقتوردشمن سےلڑنےکاعملی تجربہ بھی رکھتےتھےاور خوشی سےسامناکرتےتھے۔گویاجنگ ان قبائل کووراثت میں ملا ہو۔ان قبائل بشمول دیرسوات اور بونیر تک پختون قبائل کو یاغستان کےنام سےپکاراجاتاتھاجسکا مطلب باغی لوگوں کا مسکن ہے۔

محسود اور وزیر قبائل 1894

جب انگریز 1894 کوجنوبی وزیرستان کےعلاقہ وانہ پرقابض ہوئےاور وزیرقبائل کاایک جرگہ انگریزکےپاس جارہاتھاتو اس وقت انگریزکوخبرموصول ہوئی کہ محسود قوم کےزیلی قبیلہ شبی خیل کاایک ملا(ملاپاویندہ) اپنےدوہزارپر مشتمل محسودقوم کےساتھ نہ صرف جرگہ کےخلاف بلکہ انگریزکےساتھ بھی نبردآزما ہونے کی حالت میں جنڈولہ کی طرف بڑھ رہاہے۔ انگریزنےبھی ملاپاویندہ کا خیرمقدم کرنے کےلئےمزیدکمک اپنےپیکٹس میں اسلحہ اور توپوں کےساتھ بھیج دئیے۔ہرطرف سےانگریزاپنےآپ کو بڑےچھوٹے غرض ہرقسم کےاسلحہ سے مسلح کرنےلگا۔قلعہ سےباہربارہ پیکٹس قلعہ کی حفاظت کےلئے موجودتھیں۔رات کو ملاصاحب کےلشکر کےکچھ چالیس بندوں نےحملہ کیااور سارےپیکٹس انگریزسےخالی کرائےجبکہ انگریز فوج کیمپ میں سرچھپانےپرمجبورہوئے۔

اگلی رات 3 نومبر1894 کو صبح صادق کےوقت وانہ کیمپ پر دو تین فائرنگ ہوئی اور پھرجیسےہی ایک ڈرم بجنا شروع ہوا تو اس وقت دوہزارسےزائد قبائل لشکرنےوانہ قلعہ پرداوابول دیا۔ پوائنیرزمیگزین 9 نومبر1894 کےمطابق قلعہ پر تین اطراف سےحملہ کیاگیا۔ انگریزروپرٹ کچھ اس طرح ہے کہ” وانا کیمپ پر حملے میں محسودوں نے پٹھانوں کی غیرمعمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا کہ وہ رات کے وقت اور تیز رفتاری کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں بغیر پتہ چلائے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لشکر نے اس علاقے میں پہنچ کر کیمپ کے مغرب کی طرف چکر لگایا اور دو خشک نالیوں کے راستے اندھیرے میں اس کے قریب پہنچ گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس حملے کی سربراہی خاص طور پر جنونی قبائلیوں کے ایک گروپ نے کی تھی، جن کی تعداد تقریباً 800 تھی۔“

انگریزکےوانہ کیمپ پرقیامت ڈھائی ہوئی تھی۔ہرطرف افراتفری تھی اور انگریزتھےکہ مررہےتھےاورانکی لاشیں گررہی تھیں۔ انگریزنےاس جنگ میں اپنانقصان کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ ”وانا کیمپ پر حملے میں برطانوی اور ہندوستانی نقصانات میں 2 برطانوی افسران ہلاک، 2 ہندوستانی افسران اور 19 جوان ہلاک اور 5 برطانوی افسران اور 38 فوجی زخمی ہوئے۔ یہ ہلاکتیں بنیادی طور پر گورکھوں کی تھیں۔ 20ویں پنجاب انفنٹری سے منسلک 26ویں پنجاب انفنٹری لیفٹیننٹ تھامسن زخمی ہو گئے۔ 43 فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ حملہ آور بڑی تعداد میں رائفلیں اور کافی نقد رقم لے کر فرار ہو گئے۔ 100 سے زائد سامان والے جانور ہلاک یا زخمی ہو گئے۔“

اب اگر دیکھاجائےتو کوئی بھی لشکریافوج جنگ میں پیش آنے والے اپنے نقصانات کا بہت کم تخمینہ بتاتےہیں تو اب اگر دیکھا جائےتویہاں اس رات انگریز فوجی سینکڑوں کی تعداد میں لقمہ اجل بن چکےہونگے۔آگے جب انگریزنےقبائلی سرداروں کے ساتھ جرگہ کیااور مزید لڑائی سےبچنےکےلئےانگریزنے ملاپاویندہ کی وزیرستان سےبیدخلی اور یرغمالیوں کی واپسی کا ذکرکیا ہے جس سےصاف ظاہرہوتاہےکہ قبائل نےانگریزفوج کے بے شمار فوجیوں کو اپنےساتھ یرغمال بناکرلےگئےتھے۔ انگریز رپورٹ کچھ اس طرح ہے کہ  

The Mahsud maliks were offered terms, which involved the supply of hostages, the expulsion of the Mullah Powindah from Waziristan until the boundary marking was complete and the return of the loot taken in the attack on 3rd November 1894.  The period for compliance was given and extended to 12th December 1894۔

اس طرح انگریز نےبعد میں مزید تین بریگیڈ فوج بلاکر وزیر اور محسود کےخلاف مہم شروع کی یہ مہم جنوری 1895 تک جاری رہی۔اس میں جنرل لوک ہارٹ نے ایک مقام پر محسود قبائل کےسامنے ہتھیار بھی ڈال دئیے۔

وزیرستان 1894/95

اسی طرح انگریزاور ملاپاویندہ کےدرمیان آنکھ مطولی ہوتی رہتی تھی مگرانگریز ان سےبہت تنگ تھے۔دوسری طرف بہادر قبائل بھی بڑےدلیر اور بےپرواہ لڑتےبھی تھی اور جنگ کی بڑی مهارت بھی رکھتےتھے۔

ایک دفعہ انگریز سرکارکےایک آفیسرمحمداکرم صاحب کو 1910میں لالہ سندرلال جی کےتانگہ میں میران شاہ سے بنوں جاتےہوئےراستہ میں داوڑ قوم کےکچھ راہزنوں نےپکڑ کر اپنے ساتھ لےگئے۔محمداکرم صاحب اپنی داستان ”قیدیاغستان“ میں لکھتےہیں ایک دفعہ خبرپہنچی کہ ملاپاویندہ انگریز سے ٹوچی کا علاقہ واپس لینےکےلئےجنگ کا ارادہ رکھ رہےہیں اور قبائل کو جمع ہونےکی ہدایت دی گئی ہیں۔محمد اکرم صاحب لکھتےہیں کہ جن لٹیروں نےہمیں اغواکیاتھاوہ بھی ملاپاویندہ کی احترام کرتے اور انکی ایک آوازپرجہادمیں حصہ لینےکےلئےسارے تیار ہونے لگے۔محمد اکرم صاحب لکھتےہیں کہ”لیکن اس پر سب کا اتفاق تھا کہ ملا صاحب نے جہاد کے لیے ہمیں بلایا ہے اور ہم اب جلد انگریزوں کو نکال باہر کریں گے۔ بعض جوشیلے جوان خیال کرتے تھے کہ انگریز لڑیں گے نہیں اور ٹوچی اُن کے حوالے کر کے چلے جائیں گے۔ عورتیں اُٹھ بیٹھیں اور اُن کے لیےمختصر زاد راہ مہیا کرنے لگیں۔ دُھوپ کے بچاؤ کے لیے اُن کے لمبے لمبے بالوں میں گھی لگا دیا گیا۔ چپلیاں جو کہ دھاڑا مار نے کے لیے اکٹھی بنائی جاتی تھیں، آپس میں تقسیم کر لی گئیں۔ اگر کسی کے پاس کارتوسوں کی کمی تھی، تو زیادہ کارتوس والے نے اپنے پاس سے اُسے دے دیے۔ کمریں پٹکوں کے کمر بندوں سے خوب کس لی گئیں۔ آنکھوں میں سرمہ لگایا گیا تا کہ دور بینوں کا مقابلہ اپنی تیز آنکھوں سے کر سکیں ۔ خنجر تیز کر لیے گئے،رائفلیں صاف کی گئیں اور آخر اپنے سردار کے پیچھے گاؤں سے باہر نکل کر جمع ہو گئے ۔ اپنے وطن اور ملک کی خاطر قربان ہونے کے خیال سے جو مسرت اُن کے چہروں پر برس رہی تھی اور جس طرح وہ پروانہ وار جنگ کی آگ میں کودنے کے لیے آمادہ ہو رہے تھے، اُس سے میرے دل میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو رہا تھا کہ کاش میں بھی اپنی ناچیز جان اُن کےشریف مقصد پر قربان کر سکتا“یہ اس وقت کے قبائل کا حال تھا کہ کس چابکدستی سے اپنےسےبڑےاور طاقتوردشمن سے نبردآزماہونے کےلئےتیارہورہےتھےجس سے انکی ایک آنکھ بھی نہ بھاتی۔ 

ملاپاویندہ کااستاد ملا حمزه اللہ وزیر تمامگر طریقت کاستاد انکا تیراہ سےتعلق رکھنےوالا ملامحمدانورتھااور ملاپاویندہ نے ملامحمد انورسےقادریہ مبارک میں بیعت کی تھی۔جبکہ انکی ملاقات پیرمانکی سےبھی ہوئی تھی۔اس وقت علاقہ مہمند میں بھی تصوف کےماہتاب اور اولیاء الله کےسرخیل غازی نجم الدین ھڈہ ملا کابھی بہت بڑاحلقہ تصوف موجودتھا مگر شائدان تک رسدممکن نہ تھی اس وجہ سےملاپاویندہ نے ملا محمدانورکےہاتھ بیعت کی تھی جبکہ جہادی ٹریننگ اپنےاستادملاحمزاللہ سےلی۔ ملاپاویندہ، غازی نجم الدین سے ایک سال پہلے میدان کارزارمیں کودپڑےتھے۔ لیکن ان دنوں جب ملا پاویندہ کی عمر بڑتھی جارہی تھی اور اس دنیا میں انکا بہت کم وقت باقی رھا ان دنوں یعنی 1897میں وزیرستان کو اللہ تعالیٰ نےمرزاعلی خان المعروف ایپی فقیر کی شکل میں ملاپاویندہ کا جانشین جہاد عطاکیا۔ملا محی الدین نہ صرف ملاپاویندہ بلکہ سیلانی ملا اور شہنشاہِ طالبان کےنام سےبھی مشهورو معروف تھے۔

ملاپاویندہ کی پیدائش 1863میں ہوئی جبکہ آپ  1913 کو اس دارفانی سےتقریباً پچاس سال کی عمر میں کوچ کرگئے۔

ملاپاویندہ کی سکیچ

0 comments
0 likes
Prev post: ایک گمنام سےنامورشاعر تک۔زیت الرحمان عاجزNext post: په رحمان بابا دا تحقیق په اول ځل یو لیکوال طارق خلیل پیښور کړے دے ددی نه وړاندی پری داسی تحقیق چا نه ده کړے زکہ چہ طارق خلیل صاحب د تپہ مومند ہرہ وڑہ قبیلہ او محلہ پیژنی او د تپہ مومند ٹول لیکوالانو سرہ ئےپہ مرکےکړ‎ےدی۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *