ایک گمنام سےنامورشاعر تک۔زیت الرحمان عاجز

      

اپنےعلاقہ سےتعلق رکھنےوالے ابھرتےہوئےپشتو زبان کےایک نوجوان شاعر زیت الرحمان عاجز پر لکھنےکی تمنا ایک لمبےعرصہ تک دل میں دبائے رکھا مگر آج کل انکی تازہ کلام سن کر انکی شاعری نےآخر کار لکھنے پر مجبور کیا۔زیت الرحمان عاجز ایک بہت غریب گھرانے سےتعلق رکھنےکےساتھ ساتھ ایک ایسےمعاشرے میں پھلےبڑےہوئےہےجہاں ابتدائی تعلیم اور شعور کی انتہائی کمی کےباوجود اس انسان نےشاعری کی دنیا میں کمال کی مہارت اور شہرت خاصل کی ہے۔واقعی شاعری اللہ کی دین ہوتی ہےاور یہاں اللہ تعالیٰ نےاس شاعر پر شاعری میں چھپرپھاڑ اپنی نوازشات کی بارش کردی ہے۔یہ ایک خداداد صلاحیت ہےاور اس صلاحیت کی زیت الرحمان عاجز پر جیسےکہ بارش ہوئی ہے۔

زیت الرحمان عاجزکی ایک طرف عمر بہت کم ہےتو دوسری طرف اس نےتعلیم بھی بہت کم حاصل کی ہےمگر باجود اس کےعاجز صاحب کےہرشعرمیں علم کا ایک سمندر اور ایک بہربےپایاں کی طرح عقل کی باتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ عاجز کی اس کم علمی کےباجود بہت گہری باتیں انکی شاعری سےٹپکتی ہے۔شعر کا اصل حسن خیال کی پختگی اور بلندی ہےمگر اس کم عمری میں عاجز نےخیال کی پختگی کی سرحدوں کو کئی دفعہ عبور کیا ہے۔ جیسے کہ 

بےحوندہ حکمرانہ ناروا تہ مہِ زڑہ کیږی۔

غربت مجبورہ کڑےیمہ غلا تہ مہِ زڑہ کیږی‎

ڈالرےخوپریدہ کہ څوک جنت ھم راکوی خو

واللہ کہ بہ دہ دےخاورےسودہ تہ مہ زڑہ کیږی‎

عاجز صاحب کوزبان اور الفاظ پر قُدت خاصل ہے مگراسکے ساتھ ساتھ عاجز مجموعی معنیاتی فضا میں کمی محسوس کرتا ہے اور اس کا ذہن نِت نئی معنویت تلاشنے اور نئے نئے لفظ ٹٹولنے میں سرگرداں ہوتا ہے۔بلاشُبہ نئی معنویت کی افزائش و نگہداشت اور اس کے صحیح تر ابلاغ کے لئے ایک جہانِ نو کی ضرورت ہوتی ہے جس کی تعمیر وتشکیل میں ہر شاعر یا ادیب کے ہاں مخصوص تہذیبی،ثقافتی یا سماجی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔لیکن یہ سارےعوامل عاجز صاحب کو پیدائشئ ملےہیں۔ عاجزصاحب فکری ومعنیاتی فضا کے مطابق نئی زباں تخلیق کرتا ہے اور نئے نئے لسانی پیرایے پیش کرتاہے جو ایک خوگراثرچھوڑتاہے۔

ترقی گرانہ دا کہ دغسےواکدار اودہ وی

ھغہ کورلوٹ شی چہ دکُم کورڅوکیدار اودہ وی

تمامہ شپہ ویخ وی دښارحلق خوبونہ نہ کوی

خوچہ پختون څوک قتلوی ٹول ښاراودہ وی

تہ چہ ناروغہ شےنوڅومرہ صحافیان رادرومی

 زہ چہ لوٹ کیږم

‎صحافی د ہراخباراودہ وی             

مجھےعاجز کی شاعری میں جو چیز سب سےزیادہ خیران کردیتی ہےوہ قوم کی انتہائی باریک بینی سےترجمانی کرنا اور پشتون قوم کےان پہلوؤں کو ایسےاجاگرکردیتاہے کہ ہر پختون کےامنگوں کہ نہ صرف ترجمانی کرتاہےبلکہ موجودہ صورتحال کا ایک حقیقی حاکہ الفاظ کی چناؤں سے ایسےمزین کرتاہےکہ انسان سوچتاہےکہ ان الفاظ اور سوچ کوسن کر اس سےمخظوظ ہوجاؤ یااس المیہ پر رؤں۔یہی عجیب بات ہوتی ہےکہ عاجز صاحب اپنی قوم کی ترجمانی کرتےہوئے ایسےپہلوؤں کی عکاسی کرتاہے جس کےلئےایک اچھی کافی علم حاصل کرنےکی ضرورت ہوتی ہے اور تاریخ کےجھروکوں میں جھانکابہت ضروری ہوتاہےمگر عاجز صاحب ایسی ترجمانی کرتاہےگویاان کو پختون قوم کی تاریخ ازبر یاد ہو۔

 

کوؤم پہ فٹ پاتونوباندےښارکښےروجہ ماتے

‎مونږ باندےاکثررازی پہ لارکښےروجہ ماتے

لږ‎ساگ دے،یو روٹئ او څلورپنځہ کجورے ،دَکارځائےتہ مہ راوړ‎لږ‎ دےاخبارکښےروجہ ماتے

مرغئی مہ دومراہ خوښےدی کہ امن چرتہ راغے

کوؤم بہ د مرغوسرہ چینارکښے روجہ ماتے

دوسری طرف اپنےپختون معاشرےکی برائیوں کا ایسےالفاظ میں تصویرپیش کرتاہے کہ بغیر غش غش کئیے اور خیران ہوئےانسان نہیں رہ سکتا۔جیسے کہ

؀پہ بیل بیل نغری کښےبہ پہ اوور خفہ کیدہ

دَ رور پہ بیلیدو بہ رانہ خور حفہ کیدہ

چہ چرتہ بہ ماھم کوہ صفت د نوروژبو

زمانہ بہ پہ دےخبرہ مور خفہ کیدہ

څہ بل شان زمانہ وہ پہ ٹوپکوئےڅہ نہ وائل

خو صرف د حجرےپہ ٹنگ ٹکورخفہ کیدہ

سورےتہ ئے دشوق نہ غاړ‎ہ نہ وہ ایخے

عاجزہ پختنہ وہ پہ خپل رور خفہ کیدہ

اور آگےپھر کہتےہیں کہ۔۔۔

؀کہ پہ پیسوئےمڑےاونہ بخو غم مہ کوہ

بریتولہ تاؤ ورکہ پیزوان خو چرتہ تلےنہ دے

پہ ځنگلونوکښےپہ زان کلمے مہ چپ کوہ

کہ سپواو نہ خوڑےانسان خو چرتہ تلےندے

اب جو سب سےخیران چیز عاجزصاحب کی شاعری میں ہے وہ ردیف اور قافیہ ہے۔یہ بندہ ایک لمبہ ردیف کا استعمال ایساکرتاہےکہ شاعری سےشاعری، نصیحت سے نصیحت اور تقریرسےتقریرلگ رہاہوتاہےجیسے کہ                                          ‎مہ تر غوږ‎

وشو د گولو بچیہ سہ چل وشو

چینارکښےشوردے د مرغو بچیہ سہ چل وشو

پریگدہ زما دحج عمرےاو د دارو خبرے

خو دَ خانانو دَ پیسوبچیہ سہ چل وشو

میں تو عاجز صاحب کو موجودہ دورکےشعراء میں مختلف فکرواثر والےردیف کو مختلف قافیوں کےساتھ شعرکہنے والوں میں سب سےزیادہ ماہرسمجھتاہوں۔جیسے کہ

نزدےراتہ ولاڑ دےہرالزام لکہ د کونڈے

تیریږ‎ی مہ د جوند ہر یوماښام لکہ د کونڈے

ردیف اور قافیہ کےساتھ ساتھ عاجزصاحب پختونوں کے بدبخت معاشرےمیں ایسےوقت میں بچپن سےجوانی میں داخل ہوئے جہاں پچھلےبیس سال سےیہ خطہ امن کےلئےترس رہاہے اورگویایہاں امن کی آواز اور حالات کی  تصویر موجودہ دور کےتمام شعراء میں سےسب سے زیاد عاجز صاحب نے انصاف کےساتھ پیش کیاہےاوربڑی باریک بینی سے پختونوکی المیہ پرگریہ وزاری کی ہے۔ عاجزصاحب نے بڑی کسمپرسی کی زندگی گزاری ہے اور یہی چیزایک خوبصورت اندازمیں انکی شاعری سےچھلکتی ہے۔ شائد میں اس دعویٰ میں غلط نہ ہوں کہ عاجز صاحب کاشمارپختونوں کےسب سے دل لبھانے والے، دل نشین،مرغوب اور بلیغ شاعروں میں ہوتا ہے۔ عاجزصاحب نےاپنی مادری زبان پشتو کی خدمت ایک نئی قسم کی رنگین شاعری کےاضافہ کی صورت میں کی ہے۔ 

عاجز صاحب کا شاعری کا مجموعہ جو حال ہی میں چاپ چکا ہے۔

تحریر؛نجات خان مہمند۔

0 comments
8 likes
Prev post: سوئےحجازNext post: ایک سرپھراقبائلی لیڈر۔۔۔ملاپاویندہ

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *