خالدؓ بن ولید کی عراق سےشام تک ایک کربناک سفرِجہاد کی رونگھٹے کھڑے کردینےوالی داستان۔

تحریر؛نجات خان مہمند۔

عرب کےان لق ودق اور جان لیوا خشک صحراؤں میں سفرکرناجان جوکھوں میں ڈالناہے۔اسی طرح آج سےچودہ سوسال پہلےبغیروسائل کےسفرکرنا ایک عظیم مہم کوسرکرنے کےمترادف تھا۔ان صحراؤں سےجڑی سفری داستانوں میں ایک جان لیواسفر کےساتھ اپنے وقت کےایک عظیم جنرل اور سب سےزیادہ طاقتوراوروسیع سلطنت روم کے تخت و تاراج کرنےوالے حضرت خالدؓ بن ولید کو بھی کرناپڑا۔ ہوا یوں کہ سلطنت فارس کےزیرحکومت علاقہ عراق میں جنرل ہرمز اور کئی دیگر فارسی و عربی فوجوں کو شکست دینے کے بعد خلیفہ اول نےشام کےعلاقہ میں چار دیگر اسلام کےسپہ سالاروں ابوعبیده بن الجراحؓ،شرحبیلؓ، یزید ابن ابوسفیانؓ ؓاور عمرو بن العاصؓ کو مشکل سےنکالنےکےلئے خالدبن ولیدؓ کو فوراً وہاں پہنچنے کی ہدایت کی۔

حضرت خالدبن ولیدؓ نےدریائےفرات کے علاقہ الحیرۃ جسکوآج کل کوفہ کہتےہیں، سے شام کےعلاقہ سویٰ براسته قراقراور اسکےبعد بُصرہ (اردن) میں شرحبیل بن حسنہؓ کےلشکرسےجاملناتھا۔اب الحیرہ سےبراستہ قراقرسےسویٰ تک یہی سب سےقریب ترین ایک سو بیس میل کا راستہ پڑتاتھا مگریہ بھی ایک لق و دق ریگستان سےگزرتاجو بمشکل چھ دن میں سرکیا جاسکتا تھا۔تاریخ طبری کےمطابق اگر دوسرے لمبےراستہ سےجاناہوتاجو آباد علاقوں سےگزرتاتھاتو وہی راستہ چھ سو سے سات سو میل دور تھا۔خطروں سےلڑنےکےعادی خالدبن ولیدؓ نےیہی راستہ چن لیا۔دلیل راہ یعنی رستہ دکھانےوالے رافع بن عمیرہؓ تھے۔ پورےلشکرمیں انکو ہی راستہ میں پانچ دن سفرکےبعد ایک چشمہ معلوم تھا۔ لیکن یہاں دلیل راہ رافع بن عمیرؓ نےبھی خالدبن ولیدؓ کو اس راستہ سےسفرنہ کرنےکامشورہ دیا۔

عظیم سپہ سالار خالد بن ولید نےالحیرہ سےاسی صحرائی راستہ پرسفرکاارادہ کیا۔آج کل اس صحرا کو حماد کہتےہیں۔جون 634 عیسوی بمطابق تیرا ہجری کو یہ سفرشروع ہوئی۔الحیرہ سےقراقر پہنچ کرسپہ سالارنےکہا کہ اب پانچ دن تک پانی کےبغیرایک مشکل ترین اور المناک سفرہمارامنتظرہے۔اسلئےیہاں سےجانوروں کو بھی اور ساتھ بھی پانی لےجانےکابندوبست کیاجائے۔اب اس نوہزار اسلامی لشکر کےزندگی اور موت کاانحصار ان جان لیواسحراؤں میں اللہ کےبعداسی پانی کےچشمہ پرتھا۔

حضرت خالدبن ولیدؓ نے عراق کےلئے مثنیٰ بن حارثؓہ کو نائب مقرر کیا۔وہ بھی قراقر تک خالدبن ولیدؓکےساتھ آئےمگروہ اس پرخطرراستہ پر خالدبن ولیدؓکےسفرپربےحدخیران تھے۔ان پررقت طاری ہوا۔آپؓ سےالوداع کےوقت لشکر کودعاکےلئےہاتھ نہیں اٹھائےجارہےتھے۔ لشکرروانہ ہوئی اور رافع بن عمیرہؓ رہبری کرتےہوئےآگے آگے جارہےتھے۔دن کی روشنی تیز ہوئی۔گرمی کی شدت میں اضافہ ہونےلگا۔ہرسوں ریت ہی ریت کےٹیلےتھے۔پورادن سفرمیں گزرگیا۔جب رات ہوئی تو لشکرپانی پرٹوٹ پڑا۔کھانےکےبجائے بھی پانی پی لیا۔

قراقر سےچشمہ پانچ دن کےسفرپرتھا۔

اگلےدن پھر سفر شروع ہوئی مگرلشکرکو علم ہواکہ یہ ایسی صحرانہیں جہاں ان لوگوں نےایساسفرکیاہو۔یہ ایک جہنم کی مانندتھا۔ایک طرف تپش تو دوسری طرف ریت کی چمک جوآنکھیں کھولنے نہیں دےرہی تھی۔یہ آگ کا سمندرتھااور لشکرشعلوں میں تیرتاچلاجا رہا تھا۔تیسرےدن کا سفربھی شروع ہوامگریہ سفرتب مزید خطرناک ہواجب لشکر کو نشیب و فراز اور ٹیلوں میں سفرکرناپڑرہاتھا۔یہ ریت اور مٹی کےٹیلےتھےجو آگ کی مانندتھے۔

اب لشکر سیدھاچلنےکےبجائےمڑ مڑکےچلا جارہاتھا۔راستہ بھٹکنےکا بھی ڈرتھا۔بعض جگہوں پر ٹیلوں کےدرمیان راستہ اتناتنگ ہوجاتا کہ اونٹ مشکل سےاس میں گزرسکتاتھا۔گرم پھترجسموں پرلگنےسےاونٹ بدھک جاتےتھے۔

تیسرےدن سفرکےاختتام پر لشکرنےپڑاؤ ڈالا۔سب کےمننہ کھلے تھے۔لشکرکےلوگ ایک دوسرےسےبات کرنےکےبھی قابل نہیں رہےتھے۔اس شام جب لشکرنےپانی پیاتو یہ ہولناک انکشاف ہواکہ باقی سفرکےلئےپانی نہیں رہا۔چونکہ پانی پانچ دن کےذخیرہ کےلئےکافی تھامگریہ تیسرے دن ہی ختم ہوا۔

جب لشکرنےتین دن کاسفرکیاتولشکرکےپاس پانی ختم ہواجبکہ چشمہ تک پہنچنےمیں مزید دودن کاسفرباقی تھا۔یہاں اونٹنیوں کوذبح کرکےانکےپیٹ سےپانی نکال کرانسانوں کے بجائےگھوڑوں کو پلایاگیا۔اب ایک دفعہ پھرسوکھےہونٹوں کے ساتھ لشکرزندگی اور موت کی کشمکش میں روانہ ہوئی۔آگے تپتی ہوئی ریت اور نظر خیرہ کرنےوالا دھوپ تھا۔اس دوران صحرہ کی اڑتی ریت اور تیزدھوپ نےکچھ وقت کےلئےرافع بن عمیرہؓ کی نظرچھین لی تھی۔چوتھادن قیامت سےکم نہیں تھا۔صحرامیں دور اگر دیکھاجائےتو نیلےآسمان اور تپش کی وجہ سےپانی کا ایک تالاب نظرآتاہے۔ایسا ہی اس لشکر کو بھی دیکھنےکوملا۔یہ دیکھ کر لشکرسےایک آدمی اونٹ سےاتر کردوڑامگردورجاکرکچھ نہ ملا۔تین چارمجاہدین اسکےپیچھے چلے۔رافع بن عمیرہؓ نےکہاان کو اللہ کےسپرد کردو۔اور یہ کہ صحرا نےقربانیاں وصول کرناشروع کئیے۔تھوڑی ہی دیرمیں ایک مجاہد پیاس سےنڈھال اونٹ سےگرااور اونٹ کے بجائےکسی دوسری طرف چل پڑا۔کوئی بھی اسکےپیچھےنہ چلا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ تپتی دھوپ کی وجہ سےسب کی آنکھیں بند تھی۔یہ چوتھا دن بغیرپانی کےڈھل رہاتھاتویہ حقیقی طورپرجہنم سےکم نہ تھا۔

اس دن تپش اور ریت کی چمک کی وجہ سےکوئی آنکھ کھول نہیں سکتاتھا۔مگر بعدمیں انکی آنکھیں کھلتی ہی نہیں تھی۔اونٹوں کی بھی حالت خراب تھی۔کوئی اونٹ بڑی خوفناک آواز نکالتاتھا۔اونٹ بیٹتےاور ایک طرف لڑھک جاتے اور سوارگرتےجاتے تھے۔لشکرکےدیگرافراد کی خالت یہ تھی کہ انکو پتہ بھی نہیں چل رہاتھا کہ انکےساتھی اونٹوں سےراستہ میں کہیں گرچکےہیں۔

وہ علاقہ جہاں خالدبن ولیدؓ نےسفرکیاتھا۔

حودحضرت خالدبن ولیدؓ کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ انھہیں پتہ نہیں چل رہاتھاکہ لشکرمیں کیاہورہاہے۔گھوڑوں کےمنہ کھل گئےتھے اور زبانیں لٹک رہی تھی۔مجاہدین کی زبانیں سوجھ گئی تھیں اور حلق میں کانٹے چبھ رہےتھے۔اب لشکرکاہرفرد ایک لاش کی مانند تھاجواونٹوں کےپیٹ پرسوار حود کوسنبھال نہیں کرسکتےتھے۔

رات کو لشکرنے پڑاؤ ڈالا اورتمام رات مجاہدین نےجاگ کرگزاری۔انکے جسموں میں سوئیاں چبھ رہی تھی۔زبانوں کی خالت ایسی تھی جیساکسی نےانکےمننہ میں لکڑی رکھ دی ہو۔سفرکےآخری دن یعنی پانچویں دن جب سورج طلوع ہواتو یہ مجاہدین کو موت کا پیغام دینےلگا۔اب یہ ایک لشکرکی طرح نہیں جارہاتھا۔اونٹ بکھر گئے تھے۔بعض بہت پیچھےرہ گئے تو کچھ دائیں اور بائیں بھٹک گئے۔رفتارخطرناک حدتک سست ہوگئی تھی۔پانی کےبغیراس لق و دق بیابان میں لشکر کایہ دوسرا دن تھا۔اللہ نےلشکرکو ایک ازیت ناک آزمائش میں ڈالاتھا۔مگر اسی کی زات لشکرکوزندہ کئیے ہوئی تھی۔

اسی دن غروب آفتاب سےپہلے خالدبن ولیدؓ مشکل سےاپنے اونٹ کو رافعؓ کےاونٹ کےساتھ لاکر فرمانے لگے کہ رافعؓ کیا اب ہمیں اس چشمہ پرنہیں ہوناچاہئیےجسکاتونےذکرکیاتھا۔رافعؓ نےجواب میں کہا کہ میں آشوب چشم کا مریض ہواور صحراکی چمکتی ریت اور دھوپ نےمیری نظرچھین لی ہے۔آپؓ نے کچھ حساب کیاتھاکہ مزید دودن سفرکےبعدحضرت رافعؓ کےمطابق چشمہ اس جگہ ہوناچاہئیے۔یہاں پہنچ کر دلیل راہ رافعؓ نےلشکرکوآس پاس چشمہ کی تلاش کےلئے کہا۔لشکر نےدیوانہ وار چشمہ کی تلاش میں آنً فانً آس پاس کا علاقہ چھان مارا مگرچشمہ کےاثارنہ ملے۔لشکرکےسپاہی رافعؓ کےپاس آئےاورکہاکہ یہاں صرف ٹیلےاور ریت ہی ریت ہیں لیکن چشمہ نہیں۔اب رافعؓ بھی خیران ہوئے۔آپؓ نے لشکرکو پانی ملنے کی نشانی یہ بتائی کہ عورت کے پستان کی طرح دو ٹیلے تلاش کئے جائیں اور بیٹھے ہوئے مرد کی طرح کا خار دار درخت ان ٹیلوں کے قریب دیکھا جائے۔بھوک اور پیاس سےنڈھال سپاہی پہاڑ تلاش کرنےمیں لگے لیکن ایک خاص قسم پہاڑانکو ملا۔رافعؓ نےکہا اسکےآس پاس دیکھےکوئی جھاڑی بھی ہوگی۔سپاہیوں نےکہاکوئی جھاڑی نہیں ہے۔یہ سن کرآپؓ نے بےاختیارکہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یعنی میں بھی ہلاک ہوا اورتم بھی برباد ہوئے۔اب نوہزاربندوں اور موت کے درمیان اس نامعلوم مقام پرکچھ لمحوں کی دوری باقی تھی۔رافعؓ نےکہاکہ اگرجانیں بچانی ہیں توجھاڑی تلاش کرو۔اب پھرسپاہی جھاڑیوں کی تلاش میں نکلے۔

سپاہیوں کو ایک تنامل گیااور اس سےآپؓ کو آگاہ کیاکہ شائد یہ کوئی جھاڑی تھی مگراب تنارہ گیاہے۔آپؓ نےکہاکہ اسکے آس پاس مٹی کھودڈالو۔جب زمین کی کدھائی شروع ہوئی کہ چند فٹ گہرائی کےبعد چشمہ اُبل پڑا اور نیم جان سپاہی پانی پرجھپٹ پڑے۔پانی سےپورالشکرسیرہوااورجانوروں کوپلانےکےبعداپنےچمڑےکے مشکیزےبھی لبالب بھرلئیے۔اس لشکر میں خالدابن ولیدؓ کےساتھ عبدالرحمان بن ابوبکرؓ اور ضرار بن ازورؓ بھی تھے۔

حضرت رافعؓ نے بتا یا کہ یہ راستہ ایک بار تیس سال پہلے انہوں نے لڑکپن میں اپنے والد کے ہمراہ دیکھا تھا اور قرا قر سے اسی راستے سویٰ تک سفر کیا تھا۔

اس ازیت ناک آزمائش سےنکل کرلشکرکو شام کی سرحد تک مزید ایک دن کا سفرکرناتھا۔جہاں سویٰ کےقلعہ پر رومیوں کا لشکر ان مجاہدین سےلڑنےکےلئےتیارتھے۔اسلامی لشکر کی ایک تو تعداد کم تھی دوسرا یہ کہ صحرا کے ان پانچ دنوں کےسفرنےانکےجسموں کو چوس لیاتھا۔وہ بہت کمزور اور لاغرہوچکےتھے۔لیکن اللہ کے فضل سےخالد ابن ولیدؓ نے اس قلعہ کو فتح کرلیا۔یہاں غسانی عرب آباد انکےساتھ جنگ کرکےسارا فوج یہاں سےآگےآرکہ نامی قلعہ میں رومیوں کےہاں پہنچ گئے۔رومیوں نےغسانی عیسائی عربوں کو قلعہ کےاندرآنےدیا۔خالدبن ولیدؓ کو جب پتہ چلا تووہ بھی انکےپیچھے لشکرلےکےچلےگئے۔رومیوں کو جب علم ہوا تو وہ قلعہ کی دیواروں پر چڑھ کر مسلمانوں پرتیربرسانےکےلئےچوکناہوگئے۔باہر مسلمانوں نےقلعہ کا محاصرہ کرلیا۔مسلمان انکو قلعہ حوالے کرنےکےلئے کہہ رہےتھے۔بصورت دیگرہرکوئی مرنےکےلئے تیارہوجائے۔جواب میں رومیوں نےکہاکہ اتنی آسانی سےیہ قلعہ ملنےوالا نہیں۔

ایک عیسائی بزرگ عالم کی پیشن گوئی۔ واقدی لکھتےہیں کہ اس قلعہ کےاندرایک ضعیف العمرعیسائی عالم تھا۔غسانی اور دیگرلوگ انکی بات مانتےتھے۔انکی بہت قدر و منزلت تھی۔اس نےرومی سالار کو بلاکر کہا کہ ”کیا اس لشکرکا عَلم کالےرنگ کا ہے“جواب ملا ہاں۔پھر اس عالم نےکہاکہ”کیایہ فوج صحرامیں سےاس راستہ سےآئی ہےجہاں سےکوئی نہیں گزرا“طبری اور واقدی نےکہاکہ دومخبروں نےعالم کا بتایاکہ ہاں مسلمانوں کا یہ لشکرصحرا کےاس راستہ سےگزرکرآئی ہےکہ جہاں اونٹ بھی نہیں جاتےاور جہاں سانپ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔عالم نےپھر پوچھاکیاان کےسالارکا قداونچاہے؟کیااسکاجسم گھٹاہواہےاور اسکےکندھے چوڑےہیں؟کیا اسکی داڑھی گھنی ہے؟کیا انکےچہرےپرکوئی داغ ہیں؟ ان سب سوالوں کےجواب ہاں میں ملے۔یہ سن کرمعمرعالم نےرومی سردار کی طرف دیکھ کر سردونوں طرف ہلاکرکہنے لگاکہ یہ وہی شخصیت ہےکہ جنکامقابلہ کرنےکی ہمت تم سےکسی میں بھی نہیں ہے۔رومی سردارنےاسکا بُرا مان کرکہاکہ وہ ہماری قیدمیں ہوگا۔یہ سن کراس عالم نےکہاکہ مدینہ کا یہ شخص جس راستہ سےآیا ہے اسکو کسی نےاب تک شکست نہیں دی ہے۔لہٰذاہ قلعہ انکے حوالے کردے۔مگراسکےباوجود بھی رومی اور غسانیوں نےقلعہ پرچڑھ کر مسلمانوں پرتیربرسائے۔لیکن مسلمانوں کی قلعہ میں داخلہ کا امکان جب یقینی ہواتو رومی سردار صلح اور جزیہ دینےپر رضامند ہوااور قلعہ بغیربڑی جنگ کےمسلمانوں کےقبضہ میں آگیا۔

یہاں سےفارغ ہوکرخالدابن ولیدؓ بُصرہ (آجکل اردن) میں شرحبیلؓ کی مدد کےلئےجلدی میں نکل گئے۔وہاں شرحبیلؓ کااپنےچار ہزار لشکر سے رومیوں کے ایک عظیم لشکرسےٹاکرا چل رہاتھا۔شرحبیلؓ اور انکی لشکررومیوں کےنرغہ میں آچکی تھی کہ عین اس موقع پر اللہ کی تلوار خالدابن ولیدؓ پہنچ گئے۔اور اسی طرح بُصرہ ایک خونریز لڑائی کےبعد مسلمانوں کی قدموں میں گرا۔

1 comments
5 likes
Prev post: ایک شاعر ایک مصور۔دو وصف یکجا۔ تراب مہمندNext post: مہمند اور گیگیانی علاقہ کےدرمیان تین ٹیلوں پر بنے ایک بنجرگاؤں اشرف کور(درےسرےڈھیری)سےشنکرگڑھ پھر شبقدر اور اب ایک بڑے بازارمیں تبدیلی تک کاسفر۔

Related posts

Comments

  • Irfan syed

    July 20, 2023 at 6:43 pm
    Reply

    تاریخ میں ایک اور خالد معزومی نام سے بندہ گزرا ھے کیا وہ واقعی پختونوں کا جد امجد ھے؟ پختونوں کا دعوی کا ہم خالد […] Read Moreتاریخ میں ایک اور خالد معزومی نام سے بندہ گزرا ھے کیا وہ واقعی پختونوں کا جد امجد ھے؟ پختونوں کا دعوی کا ہم خالد بن ولید کی اولاد ھے کتنا حقیقت سے قریب ھے؟ Read Less

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *