سفرِ حجاز سے۔نجات خان کےحجاز سےمتعلق سفرنامہ سےایک اقتباس

موسم حج 1430ھ  

حج کےارکان اور اعمال اسلامی مہینہ ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ سےشروع ہوکر بارہ تاریخ تک جاری رہتی ہے۔سوائے طوافِ زیارۃ یعنی فرضی طواف کے،باقی تمام مناسک حج کوادا کرنےکے لیےحجاج کرام کو مکہ کےقرب وجوار میں واقع میدانِ منیٰ، میدان عرفات اور مزدلفہ جاناپڑتاہے۔اب جب ہم ان ایام سےتقریباً تیس دن پہلےحجازپہنچ گئےتھے۔ اس لیےاسلامی اور شرعی اصولوں کے مطابق حج تمتع والے لوگ شوال یا ذولقعدہ یا حتیٰ ذوالحج کےمہینہ میں آٹھ تاریخ سےپہلے مکہ پہنچ کرعمرہ کرنےکےبعد موسم حج کا انتظار کرتےہیں۔اسی اثنازائرین مسجدالحرام میں عبادت میں خوب مشعول ہوجاتےہیں۔نمازوں کےعلاوہ نفلی طواف کرناتو ہرنماز کے بعداپنی ڈیوٹی سمجھتےہیں۔کیونکہ طواف جیسی منفرد عبادت مسجدالحرام کےبغیرکہیں اورممکن نہیں ہوتی۔اس لیےلوگوں کو یہ ایک عجیب اور ساتھ ساتھ خانہِ کعبہ کی دیدار نصیب ہونےکی وجہ سے یہ عبادت ایک دل فریب اور پرنوربن جاتی ہے۔ اس دوران حجاج کرام کو ایک ایسی شحصیت جن پریقین ہمارےکامل ایمان کا حصہ ہے،سرکار دوعالم رحمت اللعالمین جناب محمدرسول اللہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت اور آپؐ کے شہر مدینہ منورہ کوبھی دیکھنےکا موقع مل جاتا ہے۔مدینہ سےواپسی پربھی ہمیں ایک عمرہ کرنےکی سعادت مل گئی۔اب جب حج کےایام قریب آتے رہےتوحجاج کرام کی دوسرے ممالک سےآمدمیں بھی اضافہ ہوجاتارہااور مسجدالحرام بھی کچاکچ بھرناشروع ہورہاتھا۔ شروع شروع میں مکہ کےبازارواضح دکھائی دیتےتھے۔مگر جوں جوں موسم حج قریب ترہورہاتھا یوں یوں بازاروں کی ہئیت تبدیل ہورہی تھی۔کیونکہ اب ہرنماز سےپہلےہرگلی،کوچہ و بازارمیں انسانوں کی ٹھاٹھیں مارتےسمندرمسجدالحرام کی طرف اُمڈ آتے۔تمام مسلمانوں کی حرکت مسجد کی طرف ہوتی تھی۔بعداز نماز پھرسےمکہ کےبازار و گلیوں میں انسانوں کےہجوم کےدریا کا رح مسجد کی الٹی سمت بہناشروع ہوجاتاتھا۔یہ ایک بڑاعجیب منظرہواکرتاتھا۔

مناسک حج اداکرنےکے لیےہمیں پہاڑوں میں پانچ دن گزارنے تھے۔اس لیےپہلےسےہم نےوہاں کے لیے ضروری سامان تیار کرلیا۔جب سات ذوالحج کی تاریخ آگئی تو مکہ میں ہرطرف سفیدچادرپوشوں کی آمدبےانتہا زیادہ ہونےلگی۔ہمیں بتایاگیاکہ آپ کو آٹھویں ذوالحج کی رات گیارہ یا بارہ بجےمیدان منیٰ روانہ کیاجائے گا۔چونکہ شریعت کےمطابق منیٰ کے لیےروانگی آٹھ ذوالحج کی صبح کوکیا جاناچاہیےاور عصر سےپہلےپہلے پہنچناچاہیے مگررش اور دن کی دھوپ سےبچنے کی خاطر اب منیٰ روانگی عمومً رات کو کی جاتی ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دن کےوقت سخت دھوپ ہوتی ہے۔اس لیےدھوپ کی شدت سے حجاج کرام بچ جاتےہیں۔ اس طرح جنابِ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی پہلی اور آخری حج سنۂ 10 ہجری بمطابق 632 عیسوی کو کیا۔حضرت محمدؐنےزندگی میں صرف ایک ہی حج کیاتھا۔آپؐ نےایک دفعہ پھرمکہ اور مدینہ کےدرمیان سفرکیامگر اس دفعہ مدینہ سےمکہ کاسفرتھا اور وہی اونٹنی قصویٰ تھی۔یہ سفربھی آپؐ نےتقریباًآٹھ دن میں مکمل کیاتھا۔اس دل فریب و دل چسپ سفرکی روداد کچھ اس طرح ہے۔ مدینہ میں آپؐ نے ابو دجانہ انصاری رضی اللہ تعالی کو گورنر اور نگران مقررکیااورخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 10ہجری کوذی قعدہ کی 25 تاریخ ہفتہ کے دن بمطابق 632ء کوتمام ازواج مطہرات کو ساتھ لے کر حج کے لیےروانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کے بعد مدینہ سے کوچ فرمایا اور عصر سے پہلے ذوالخلیفہ پہنچ گئے۔ عصر کی نماز دو رکعت قصرادا فرمائی اور وہیں رات گزاری۔ دوسرے روز یعنی چھبیس ذوالحجہ کوظہر کی نماز سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے جسم اطہر اور سر مبارک پر خوشبو لگائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنا تہبند پہنا چادر اوڑھی دو رکعت نماز ظہرقصر ادا فرمائی، پھرحج وعمرہ کا احرام باندھتے ہوئے حجِ قِران کی نیت کرلی پھر لبیک کی صدا بلند کی۔ قصواء پر سوار ہوئے اور دوبارہ لبیک کی صدا لگائی۔ پھر اونٹنی کھلے میدان میں آئی تو آپ نے پھر لبیک کی صدا بلند کی۔یہ کتناپرنوراور روح پرور منظرہوگا۔ کہ ایک لاکھ سےزائداصحابہؓ پرمشتمل یہ عظیم قافلہ ان وادیوں سے لبیک کی آوازیں لگاتے ہوئے گزرتارہاہوگا۔کبھی رات کو راستہ میں پڑاو ڈالنا،توکبھی قافلہ کانماز اکھٹےاداکرنااورکبھی آپؐ کی کوئی ہدایت براہ راست سننااوراس پر عمل کرنا۔یہ مواقع پوری کائنات کی تاریخ میں ایک ہی دفع آئیں ہیں۔ان مواقعوں کو پانےوالے بھی بہت عظیم شحصیتوں کےمالک تھے۔

صحابہ کرام آپؐ کے ہمراہ تھے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قدم پر پیروی کر رہے تھے۔وادیاں لبیک کی صداؤں سے گھونج رہی تھیں۔ اللہ اللہ کیسا تھا وہ قافلہ حج لبیک کی صدائیں بلند کرتا منزل کی جانب رواں دواں تھا۔جب آپؐ مدینہ سےاسی کلومیٹردور الروحاپہنچے توآپؐ نےفرمایا،حدیث کا مفہوم ہےکہ ستر انبیاء کرام اونی لباس پہنے ہوئے حج کے لیے الروحا کے راستے سے گزرے۔اس کا مطلب ہےبہت انبیاکرامؑ نےحج کیاہیں۔ اس کےساتھ ساتھ راستہ میں بہت عجیب واقعات آئے۔ حضرت ابن عباسؓ سےمروی ہےکہ آپؐ وادی ازرق سے گزرے تو آپؐ نے پوچھا: ’’یہ کون سے وادی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: یہ وادی ازرق ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں موسیٰ ؑ کو وادی کے موڑ سے اترتے دیکھ رہا ہوں، اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہتے ہوئے اللہ کے سامنے زاری کر رہے ہیں۔‘‘ پھر آپ ھرشیٰ کی گھاٹی پر پہنچے تو پوچھا: ’’یہ کون سی گھاٹی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: یہ ھرشیٰ کی گھاٹی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جیسے میں یونس بن متیٰؑ کو دیکھ رہا ہوں جو سرخ رنگ کی مضبوط بدن اونٹنی پر سوار ہیں، ان کے جسم پر اونی جبہ ہے، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے، اور وہ لبیک کہہ رہے ہیں۔‘‘(مسلم حدیث 166۔ابن ماجہ حدیث 2891)۔اس کےبعد حج کا یہ قافلہ آپؐ کی سربراہی میں وادی عسفان پہنچا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپؐ کا گزر وادی عسفان پر ہوا تو آپؐ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے پوچھا: ”اے ابوبکر! یہ کون سی وادی ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: وادی عسفان، فرمایا: ”یہاں سے حضرت ہودؑ اور حضرت صالح علیہما السلام ایسی سرخ جوان اونٹنیوں پر ہوکر گزرے ہیں جن کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی، ان کے تہبند عباء تھے اور ان کی چادریں چیتے کی کھالیں تھیں اور وہ تلبیہ کہتے ہوئے بیت اللہ کے حج کے لیے جارہے تھے۔“(مسنداحمدحدیث2067)۔ حجاج کا یہ قافلہ خیرالبشر خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک ہفتے بعد 3ذوالحجہ کوہفتہ کےدن سر شام مکہ پہنچا۔ ذی طویٰ کے مقام پر ٹھہر گئے۔ جسکوآج کل جرول یا ابرالظاہرکہتے ہیں۔وہیں آپؐ نے رات گزاری اور فجر کی نماز ادا کی غسل فرمایا اورپھر مکہ میں صبح کے وقت داخل ہوئے۔ یہ اتوار 4 ذوالحجہ کا دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر صفا مروہ کی سعی کی مگر احرام نہیں کھولا۔کیونکہ آپؐ نےحج قِران کی نیت کی تھی۔اس سے فارغ ہو کر آپؐ نے بالائی مکہ کےعلاقہ حجون کے پاس قیام فرمایا۔ دوبارہ کوئی طواف،حج کے طواف کے علاوہ نہیں فرمایا۔ جو صحابہ کرام ہدی کا جانور نہیں لائے تھے ان کو حلال ہونے کا حکم دیا اور ان اصحابہ کرامؓ نےحج تمتع کی۔ مکہ میں حضرت محمدؐ کاقیام۔ عمرہ کے ابتدائی مناسک سے فارغ ہونے کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب مکہ کے مشرق میں واقع الابطح، جسے وادی المحسب یا خیف بنی کنانہ بھی کہا جاتا ہے، چلے گئے۔ الابطح رہائش کے لیے مثالی جگہ تھی کیونکہ یہ کھلی اور آرام دہ جگہ تھی جہاں پانی کی سپلائی، جو اس علاقے میں کنوؤں کے ذریعے فراہم کی جاتی تھی، وافر مقدار میں میسرتھی۔ اتوار کے دن ظہر کے وقت سے لے کر جمعرات کی فجر تک کل چار دن تک آپؐ الابطح میں رہے۔ آپؐ نے وہاں 20 نمازیں پڑھیں، ان سب کو قصرادا کیا۔حضرت جحیفہؓ جسکی عمر اس وقت دس سال تھی سےبخاری اور مسلم میں حدیث مروی ہے ترجمہ کہ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریمؐ کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپؐ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ پھر میں نے بلالؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا تھا اور اسے انہوں نے گاڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ڈیرے میں سے) ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے تہبند اٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی، میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے۔(البخاری376, صحیح مسلم503)۔ ابوموسیٰ اشعریؓ بھی اس وقت یمن سےپہنچے۔آپؓ کہتےہیں مفہوم ہے کہ میں نےآپؐ کو الابطح میں پایا۔ کچھ لوگ کہتےہیں کہ آٹھ ذولحج کی صبح منیٰ روانگی سےپہلے آپؐ مسجدالحرام گئے لیکن حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سےمروی ہےترجمہ کہ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور سات (چکروں کے ساتھ) طواف کیا۔ پھر صفا مروہ کی سعی کی۔ اس سعی کے بعد آپؐ کعبہ اس وقت تک نہیں گئے جب تک عرفات سے واپس نہ لوٹے۔“(البخاری1625)۔ اسکےبعد آپؐ نےآٹھ ذولحج جمعرات کےدن فجر کی نماز وہاں پڑھائی اور پھردن کےدرمیانی حصہ میں منیٰ کےلئےروانہ ہوئے۔

                                              تحریر؛ نجات خان مہمند

اقتباس (حجاز کا خانہ قدیم )سے

1 comments
1 like
Next post: اٹلی کےسیسلی کےایک یونین کونسل کااخوال۔

Related posts

Comments

  • Nice post. I learn something new and challenging on websites I stumbleupon every day. It will always be useful to read through articles from other […] Read MoreNice post. I learn something new and challenging on websites I stumbleupon every day. It will always be useful to read through articles from other writers and use a little something from other websites. Read Less

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *