مہمند قوم کی لڑائیاں۔1851کی شبقدر جنگ جسمیں حلیمزائی اور ترکزئی کو جرمانہ کیاگیا۔


انگریز
شبقدر میں جب آئے اور مہمند قوم کی جاگیر (پانج پاؤ)پر قبضہ کیا تو اس کو چھڑوانے کےلئے 1851میں لال پورہ(اس وقت یہعلاقہ مہمند قوم کاحصہ تھا) میں سعادت خان مومند کی قیادت میں بائیزئی،خویزئی،خلیمزئ اور ترکزئی بشمول برہان خیل تمام زیلیشاخیں اکھٹی ہو کر پنڈیالی کی طرف سے انگریز کے زیر قبضہ علاقہ شنکرگڑھ کے گاؤں مٹہ پر مارچ اور اپریل 1851میں حملہ آورہوئے۔انگریز کی طرف سے جنگ کی قیادت لیفٹننٹ میلر کر رہےتھے۔ انگریز کے مطابق دونوں جنگوں میں مومند کے پانچ بندے اور کچھگھوڑے مرگئے جبکہ انگریز کے دو سپاہی مارےگئے۔اکتوبر کو میچنئی کے رحیم داد کی قیادت میں 600 بندو پر مشتمل مومند لشکرنے انگریز پر حملہ کیا جس میں انگریز کو بہت جانی نقصان ہوا۔28 نومبر کو انگریز نے بدلہ میں ڈب کور اور شمسرخیل کے تمامگھروں کو مسمار کیا۔اس دوران مومند لشکر کی طرف سے انگریز پر مسلسل فائرنگ ہوتی رہی مگر ان کی بندوقیں اتنی اچھی نہیںتھیںکہ انگریز کو کاروائی سے روکے۔اسکے بعد میچنی میں ایک قلعہ بنانے کی ضرورت پڑی جو فوراً بنادی گئی۔

مہمند لشکر جھنڈا لئیےہوئےانگریزکےخلاف جنگ کےلئےجارہےہیں۔

سعادت خان گندھاب چلے گئے وہاں حلیمزئی پر مشتمل لشکر بناکر اور لوور مہمند سے ترکزئی قوم تیار بیٹھی شامل ہوکراور پھر30نومبر کو شنکرگڑھ کے گاؤں اوچہ ولہ اور مروزئی پر حملہ آور ہوئے۔اوچہ ولہ میں دو عام بندے مارے گئے اور ان کے کچھ بیل گائےلشکر والے ساتھ لےگئے۔جبکہ لشکر نے میچنئی کے قریب پشاور کے ایک گاوں کو آگ لگا کر جلادیاتھا۔ اب 200بندو پر مشتمل لشکرنے میچنئی کیمپ پر اور پانچ سو مومند لشکر نے بانڈہ سے مٹہ پر انگریز کے گشتی فورس پر حملہ کیا جس میں انگریز کے دو گھوڑسوار زخمی ہوئے۔

Matchlock یعنی توڑےدار بندو جسکو جزائل بھی کہتےتھے

دسمبر 7کو چار سے پانچ ہزار بندوں پر مشتمل لشکر نے سعادت خان کی قیادت میں شنکر گڑھ کے گاوں مٹہ میں کیپٹن جیک سن پرحملہ کی کوشش کی مگر لشکر پر لیفٹننٹ میلر کی فورس نے توپوں کی یلغار شروع کردی۔ ایک طرف نہتے تلواروں سے لڑنے والےمجاہدین اور دوسری طرف اس وقت کے جدید اسلحہ سے لیس انگریز فوج۔اس میں مٹہ کے سکندر خان تین سو لشکر کے ساتھ انگریزکے ساتھ شامل ہوئے۔جنگ کے احتتام پر انگریز نے جانی اور مالی نقصان کی کوئی تعداد نہیں بتائی ہیں۔دسمبر تک مومند لشکر کےحملے میچنئی اور مٹہ میں موجود انگریز فوج پر ہوتی رہی۔جس میں ایک انگریز انجنئیر کو میچنی سے ایک میل دور کچھ بندوں نےمارا۔

خان آف لالپورہ سعادت خان اور انکے آدمی۔

پانجپاؤ کی مسماری۔ ان مہمات کےبعدانگریز کو علم ہواکہ ہمارے مظبوط قلعہ کو جس جگہ سےایمرجنسی سطح پرخطرہ ہےتووہقریبی گاؤں پنجپاؤ کےحلیمزئی سےہے۔کیونکہ 1848کےآوائل میں بھی ملک نورگل حلیمزئی نےشبقدرقلعہ پرایک حملہ کیاتھا۔جبکہاپرمہمندکے لشکر کوپناہ اور انکی مدد بھی اسی گاؤں سےکیجاتی ہیں۔انگریز کی ڈائری کےمطابق 30مارچ 1852 کو رات اسیگاؤں کےلوگوں نےقلعہ پر فائرنگ شروع کی مگرکیپٹن جےوالکرنےساٹھ بندوں کی مدد سےقلعہ کادفاع کیا۔اگلی صبح چارسوبندوں اورکچھ گھوڑوں پرمشتمل اس مہمندلشکرکامقابلہ کرنےکےلئے لیفٹننٹ ٹوٹنہم ایک ڈویژن فورس کےساتھ نکلے۔سیکنڈ ڈویژن کی کمانصوبیدار بلونت سنگھ کررہے تھے۔ان کا مقابلہ مہمند لشکر سےشروع ہوا۔مہمند اپنے matchlock یعنی توڑےداربندوقوں( بندوق جِسمیں گولی چَلانے کے لیے ماچِس یا فَتیلَہ اِستعمال ہوتا ہے)سےآگے بڑھتے ہوئے حملہ آور ہورہےتھے۔گھات لگاکر بیٹھے صوبیدارحسنبخش اوع حوالدار کرم علی نےحملہ کرکےلشکر کےقدم اکھاڑدئیے۔ دن کےدرمیانی پہرتک لڑائی کےبعد لشکرپہاڑوں کی اوٹ چلی گئی۔اس میں انگریز کےکچھ سپاہی اور گھوڑےزخمی ہوئے۔انکے کےدوگھوڑے مربھی گئے۔جبکہ مہمند لشکرکاایک بندہ شہید اور دو قیدیبنائےگئے۔دو گھوڑے بھی پکڑے گئے۔

اگلےمہینہ 15 اپریل دن کےتین بجےانگریزکو رپورٹ ملی کہ مہمند لشکرتقریباً چوہزار پرمشتمل پہاڑوں سےنیچےایک منظم طریقہ سےبڑھ رہےہیں۔لیکن لشکر کا مین حصہ شبقدرقلعہ کی بجائےمٹہ کی طرف جانےکاارادہ رکھ رہاہے۔یہاں قلعہ سے دور باہربمیدانی علاقہاور مٹہ سے بھی ریگڈئیر سرکولن کیمپل نے توپوں کا رخ لشکرکی طرف کرنےکاحکم دیا۔لشکرکومزید آگےبڑھنےسےرکنےکےلئےان پرتوپوں کی یلغار شروع کی گئی۔انگریزکہتےہیں کہ لشکرکےلوگوں نےتوپوں سےبچنے کےلئےبڑی مہارت دکھائی اور گھاٹیوں میں چھپگئے۔لشکرکےلوگوں کی بہادری کاانگریزنےبرملااظہارکیاکہ دشمن (مہمند)کس طرح ڈٹ کر لڑے۔انگریزنےیہاں سےپانجپاؤ گاؤں کوتوپوں کےگولوں سےاڑاکرملیامیٹ کردیا۔انگریزکےمطابق لشکرپر دوگھنٹوں سےزیادہ توپوں کےگولےبرسائےگئے۔لیکن یہ لوگ ڈٹے رہے۔

یوسف خیل حلیمزئی میں مہمند لشکراور انگریزکےدرمیان جرگہ۔

جب پوراگاؤں ملیامیٹ ہوااور لشکرکانام و نشان نظرنہیں آرہاتھا تو انگریزکےسپاہی گاؤں کےقریب آکرتوپیں لگانےمیں مصروف ہوئے۔اس وقت انکا لشکرکےساتھ دو بدو مقابلہ ہوامگر انگریز کے ریکارڈ کےمطابق انکے دو سپاہی جان سےگئےجبکہ آٹھ زخمی ہوئے۔ اسکےبعدپشاورسےتازہ کمک کےلئےپیغام بھیجاگیا۔پشاور سےبھی اگلےدن مزید اسلحہ اور توپیں پہنچ گئیں۔مگر نہتے مہمند لشکر نےپھربھی دشمن کا بڑی جوانمردی سےمقابلہ کیااور راتیں ان پہاڑوں میں گزاری۔انکے ساتھ تلواریں اور خنجروں کےعلاوہ کہیں توڑےدارجیزائل بندوقیں تھیں۔اس قسم کےاسلحہ سےایک پیشہ ور اور مکار انگریز فوج کا مقابلہ کرناباالکل ناممکن ہےمگر مہمند لشکرنےیہممکن کردکھایا۔اس 1852 کی لڑائی کےبعد انگریز نے کلکتہ میں 1869 کو اس جنگ میں زندہ بچ جانےوالےتمام سپاہیوں اور آفسروںسمیت بریگڈئیر سرکولن کیمپل کو اعزازات سے نوازا۔

The Indian Medal, with a clasp for the ” North-West Frontier,” was granted in 1869 to all survivors of the troops engaged in the above affair at Panjpao.

انگریز کی فوج مہمند قوم کےخلاف میدان جنگ میں 1897.

اسکے بعد انگریز نے ترکزئی قوم کو سبق سکھانے کی خاطر 1854 کوایک مہم لانچ کی ۔اسکے ساتھ حلیمزئی اور ترکزئی اقوام کیجائدادیں ضبط کی گئی۔حلیمزائی کو سالانہ دو سو جبکہ ترکزئی کو تین سو روپےجرمانہ ادا کرنےپر انکی جائدادیں انکےحوالے کئیے۔یہ اس شرط پر کہ اگردوبارہ ان قبیلوں کےلوگوں نےانگریز سےنبردآزمائی کا ارادہ کرلیاتو پھر انکی ساری جائید سرکار اپنے قبضہمیں لیکےرہےگی۔

تحریر؛نجات خان مہمند

0 comments
17 likes
Prev post: لعل مگر لعلِ بدخشاں۔۔۔ علاقہ مہمند کےایک سو پینتیس سال عمرکےبزرگ اور روحانی پیشوا کی داستانNext post: یومِ عرفہ اصل میں یومِ حج ہے۔۔۔ ایک عظیم اور یادگار دن کاسرگزشت۔​

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *