یومِ عرفہ اصل میں یومِ حج ہے۔۔۔ ایک عظیم اور یادگار دن کاسرگزشت۔​

حج کا دوسرا فرض رکن ذوالحج مہینہ کی نوتاریخ کو میدان عرفات میں مغرب تک ٹھہرکراداکیاجاتاہے۔اس دن حجاج کرام فجرکےبعد اور ظہرسےپہلےپہلے میدانِ عرفات پہنچ جاتےہیں۔یہاں ظہرکی نمازسےپہلےمسجد نمرہ میں خطبہ دیاجاتا ہےاورپھر ظہر کےوقت ظہرکےدورکعت سفرانہ نمازباجماعت اور ساتھ ہی دو رکعت عصر کی نمازبھی اس وقت اسی طرح ظہرکےوقت باجماعت ادا کی جاتی ہیں۔حج کےاس فرض رکن کو وقوفِ عرفہ کہتےہیں۔ جس کی معنی ہےعرفات میں قیام کرنا۔یہاں ظہرسےمغرب یعنی غروبِ آفتاب تک قیام کرنافرض ہےاورخاص کرعصرسےمغرب تک کھڑے ہوکراللہ کےہاں گڑگڑاکےدعائیں مانگنااوراپنی عاجزی دکھانا مقصودہوتاہے۔مغرب کی نمازقصداً قضاکرکےغروبِ آفتاب کےبعد حجاج عرفات چھوڑکرمزدلفہ روانہ ہوجاتےہیں۔جہاں لوگ عشاء کی نمازکےساتھ مغرب بھی پڑھتےہیں۔

می

میدان عرفات میں جبل الرحمۃ

منیٰ سےعرفات جانےکے لیےہماری ٹرانسپورٹ تیار کھڑی تھی۔ہم اپنےبسوں میں سوارہوکرباآواز بلندتلبیہ پڑھتےہوئےعرفات کے تیرہ کلومیٹرسفرپرروانہ ہوئے۔ آگےجاکردیکھاتوگاڑیوں کےساتھ ساتھ لاکھوں کی تعداد میں حجاج کرام پیدل چلےجارہے تھے۔ایک عجیب فضا بن گئی تھی۔ہرکوئی اللہ کےہاں خاضری لگانے،اپنی عبادات کی قبولیت اور اپنےگناہوں پرندامت لیےہوئےتیزتیزقدموں کےساتھ میدان عرفات کی طرف بڑھ رہےتھے۔

جب ہم عرفات پہنچ گئےتوسیدھااپنےخیمےمیں چلےگئے۔پہنچتے ہی ہم نفل عبادات اور اللہ کی ذکرکرنےمیں مشعول ہوگئے۔یہاں کےخیمے بہت عارضی قسم کےتھے۔گرمی انتہائی زیادہ۔مگرہرسوُ حجاج کرام نفل عبادات اور ذکرِ الٰہی میں مشعول تھے۔وہ اس لیےکہ چونکہ عرفات میں ٹھہرناایک فرض عمل ہےاوراس کو حج کادن بھی کہاجاتاہے۔ اس لیےاس دن مانگی جانےوالی ہردعاقبول ہوجاتی ہے۔اس دن لوگ اپنی مغفرت کی دعائیں مانگتےہیں۔

یہ دن میرے لیےانتہائی بھاری رہا۔ کیونکہ کثرتِ عبادت وذکرسےنیندزیادہ غالب ہوجاتی تھی۔میں کبھی سوجاتا تو کبھی اگلےلمحےپھرآنکھ کھل جاتی تھی۔یہ مجھےایک عجیب دن لگ رہاتھا۔مجھےیہاں انسان ایسےنظرآرہےتھےجیساکہ یہ سب لوگ ایک انتہائی عارضی عرصہ اور ایک انتہائی اہم مقصدکے لیے آئے ہو۔جب ظہرکاوقت ہواتومسجد نمرہ اورجبل عرفات پرحجاج کی بے انتہارش کی وجہ سےہمارےساتھیوں نےکہاکہ خطبہ براہ راست سن کراپنے اپنےخیموں میں نمازیں پڑھ لیں گے۔جبکہ مسجدنمرہ جانااتنا ضروری نہیں کیونکہ عرفات میں صرف قیام کرناایک خاص وقت کے لیے فرض ہے۔ظہرکےبعد اسی طرح ہم کبھی ٹولیوں کی شکل میں تو کبھی اکیلےعبادت میں مشعول ہوجاتےتھے۔

دوسرےحج کےموقع پرجب اللہ تعالیٰ نےہم جیسےگنہگارکو دوبارہ عرفات آمد کی شرف بخشی تو بھی میری یہی خالت تھی۔اس وقت میری بیوی بھی ساتھ تھی۔جسکایہ پہلا حج تھا۔وہ حافظہ بھی ہے۔اسلئے فجرسےپہلے قرآن کی تلاوت شروع کرکے مغرب کےقریب طلوع آفتاب کےوقت سےزرہ پہلےتیسویں پارہ تک تلاوت مکمل کرچکی تھی۔مجھےبُلاکراپنےساتھ کھڑاکرکےآخری سورتوں کی تلاوت کی۔ختمِ قرآن کےبعدبیس یاتیس منٹ تک کھڑےکھڑے ڈھیرساری دعائیں مانگیں۔یہ بڑارقت آمیزمنظر ہوتاہے۔ہرطرف لاکھوں فرزندانِ اسلام کےچہروں پرسنجیدگی اور بہت تگ و دو میں نظرآتےہیں۔یہ دن حج کےتمام ایام کانچوڑہوتا ہے۔یہ میری سوچ ہےکہ پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ کی خاص توجو کامرکز یہی ایام حج اور خاص کریوم عرفہ ہوگی۔

عصرکےبعد آسمان پر بادل چھا جانےکےکی وجہ موسم میں قدرےخوشگواری آئی۔اسی لمحہ کو غنیمت جان کرمیں حدودِ عرفات ہی میں ایک پہاڑی پرچڑھ کر میدان عرفات کا نظارہ دیکھناچاہتاتھا۔جب پہاڑی پرچڑھ کر دیکھاتو مسجد نمرہ اور جبل عرفات جس کو جبل رحمت بھی کہتےہیں،مجھ سےبہت دورتھے۔ جبل عرفات پر حجاج کی رش کی وجہ سے پوری پہاڑی سفید نظرآرہی تھی۔ جبل عرفات ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔کہا جاتاہے کہ جب حضرت آدم علیہِ االسلام اور بی بی حوا کو اللہ تعالیٰ نےدنیامیں بھیجےتوان کی ملاقات یہاں پرہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےحج کےدوران اس جبل رحمت کےمشرق کی طرف نمرہ کےساتھ اپناخیمہ لگایاتھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےظہرسےپہلےسوا ایک لاکھ اصحابہ کرام کی موجودگی میں یہاں ایک تاریخی خطبہ بھی دیاتھا۔جس کو حجۃ الوداع بھی کہتے ہیں۔جس جگہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نےخطبہ دیاتھا۔آجکل اس جگہ پرمسجد نمرہ کےنام سےایک مسجد بنائی گئی ہے۔ خطبہ کے بعد حضرت بلال رضی اللہ نے اذان دی پھر اقامت کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نمازقصر پڑھائی۔ اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ نے پھر اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی بھی دورکعت نماز قصرپڑھائی۔ اس کے بعد آپ اپنے جائے وقوف پر تشریف لائے۔ دو نمازیں اکھٹی پڑھنےکےبعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹی ”قصویٰ“ پرسوارہوکر جبل رحمت کےقریب آکرکھڑےہوگئے۔آپؐ پہاڑی پر نہ چڑھے۔حضرت محمدؐ پر سورۃ المائدہ کی تیسری آیت یہاں نازل ہوئی۔جسکا کچھ حصہ مع ترجمہ یہ ہے۔اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً ﴿۳﴾

ترجمہ”آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے“۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن ظہرسے مغرب تک کھڑے رہےاور دعا پردعامانگتے رہے۔ آپؐ کے ساتھ اونٹنی پرحضرت اسامہ بن زیدؓسوارتھے۔آپؐ اسامہؓ سےبےحد پیارکرتے تھے ۔ اس وقت اُسامہؓ کی عمراٹھارہ سال سےکم تھی۔

جب سورج ڈھل رہاتھاتومیدانِ عرفات کےماحول میں عجیب قسم کی بھاری خاموشی چھارہی تھی۔جبکہ مجھے الٹاہلکان اورآرام محسوس ہورہاتھا۔چونکہ اس دن مجھ پرنیندحدسے زیادہ غالب تھی اور تھوڑا بوجھ بھی محسوس کررہاتھا۔مگرشام کا وقت قریب آتےہی سب چیزیں دور ہورہی تھی۔ایسالگ رہاتھاکہ دن کےوقت میرا وجود کسی پُراسراچیزنےکسی قالب میں بندکیاہواتھا۔

عرفات سےجانے کاوقت جب قریب آتارہاتومجھےہلکان اورساتھ ہی ساتھ ایک قسم کی خوشی محسوس ہورہی تھی۔اب لگ رہاتھا کہ ہم نےحج کر لیا۔اگلے محاز مزدلفہ جس کی رات بہت کھٹن ہے،کے لیےمیں بالکل بھی فکرمند نہیں ہورہاتھا۔اس وجہ سےمیں حدودعرفات کےاندرپہاڑی پربھیٹاتھا اور اللہ تعالیٰ کےاس نظارےسےمحظوظ بھی ہورہاتھاور فیض بھی مل رہاتھا۔اب جب دیکھا کہ لاکھوں لوگوں نےاس دن کی صعوبتیں برداشت کرتےہوئےاللہ کےدرمیں ہرقسم کی معافیاں مانگ کر اور اللہ کےسامنے بےشمارسجدیں کرکےاب اللہ تعالیٰ کی اگلےحکم پرعمل پیراہونےکےمنتظرتھے۔ان مناظراور حالات کو دیکھ کرمیری آنکھوں سے بےاختیار آنسوؤں کےپھوارےپھوٹ پڑے۔اسی اثنامیں نےاللہ کےہاں اپنےہاتھ آگےکرکےخوب دعائیں مانگیں۔عجیب لگ رہاتھا۔کیونکہ اس سےپہلےمیرےآنکھوں سےمیری پوری زندگی میں کبھی آنسوؤں کاایک قطرہ بھی نہیں گراتھا۔ماسوائےمدینہ میں روضۂِ رسول پراس حج کے دوران خاضری کےوقت۔آنکھوں سےاچانک آنسوں نکلنےکی وجہ سے میرا وجود بہت ہلکاہوااور اتنا ذہنی سکون مل گیا جیساکہ میں ابھی اس دنیامیں آیااور گویامیں نےاب تک کوئی گناہ کا کام نہیں کیاہو۔اللہ اکبر۔

حج کےتین فرائض میں سےوقوفِ عرفہ جسکو رکنِ اعظم بھی کہتے ہیں،ایک ایسارکن ہےکہ یہ دن ایک دفعہ چوٹ جائےتوحج ممکن نہیں ہوسکتا۔کیونکہ احرام اور نیت بہت آسان ہے جو حج کا پہلا فرض رکن ہے۔جبکہ طوافِ زیارۃ کے لیےبھی تین دن ہوتےہیں۔اس لیےوہ کسی بھی وقت کیاجاسکتاہے۔ لیکن اگرایک دفعہ وقوفِ عرفہ چوٹ جائےتو پھرآپ کی حج نہیں ہوتی۔ اس لیےوقوفِ عرفہ کارکن اداکرنے کے بعدلوگ اکثرایک دوسرےکوحج کی مبارکبادیں دیتےہیں۔

منیٰ؛ مفتی منصف حقانی کےساتھ راقم الحروف

عرفات کادن بہت بھاری ہوتاہے۔جبکہ اس جدیددورمیں بھی کبھی کبھی پانی کی کمی کا سامناہوسکتاہے۔اب اگردیکھاجائےتوپہلی اور دوسری صدی ہجری میں ناجانےحجاج کرام کتنےدنوں اور مہینوں ہرمحیط سفرکرکےیہاں پہنچ جاتے۔اور پہنچنےکےبعد عرفات میں ان کو کتنی مشکلات کاسامناکرناپڑتاتھا۔کیونکہ کوفہ اوربسرہ سےمکہ کا فاصلہ نوسومیل یعنی چودہ سوچالیس کلومیٹرہے۔یہ سفر شائد ایک مہینےمیں طےکیاجاسکتاہوگا۔عباسی خاندان کے پانچویں خلیفہ ہارون رشیدکی بیوی ملکہ زبیدہ نےکوفہ اور بسرہ سےمکہ تک حجاج کی آسانی کے لیےایک اچھی سڑک دوسری صدی ہجری میں بنائی تھی۔ جبکہ ملکہ زبیدہ جب سن 193ہجری یعنی 808عیسوی میں حج کے لیے آئی توان کومحسوس ہواکہ عرفات میں ایک بالٹی پانی کی قیمت بیس درھم ہیں۔تواس وقت ملکہ زبیدہ نےعرفات کو پانی کی وافرترسیل ممکن بنانےکے لیےوادیِ حنین کوخریدکروہاں کےسارہ پانی ایک چھوٹی سی نہرکےذریعے عرفات اور پھرعرفات سےمزدفلہ اور منیٰ تک اس کی رسد ممکن بنائی۔اس سےپہلےجب سن 17ہجری کو حضرت عمرؓحج فرمارہےتھے۔توبھی ان کو عرفات میں پانی کاشدت سےکمی کااحساس ہوگیاتھامگروہ کچھ نہ کرسکے۔نہرزبیدہ سےایک ہزارسال تک حجاج کرام مستفیدہوئےتھے۔لیکن بعدمیں کچھ نامعلوم وجوہات کی بناپراسکاپانی بندہوا۔اب بھی عرفات اور منیٰ میں اس نہرکےآثارواضح دکھائی دیتےہیں۔

نجات خان مہمند کےسفرنامہ ”سوئےحجاز“ سےایک اقتباس

0 comments
1 like
Prev post: مہمند قوم کی لڑائیاں۔1851کی شبقدر جنگ جسمیں حلیمزائی اور ترکزئی کو جرمانہ کیاگیا۔Next post: ایمل خان مہمند۔ پہلےافغان اور پختون جو مغل کےخلاف نہ صرف اٹھ کھڑے ہوئےبلکہ اورنگزیب کےدانت کھٹے کرکے اپنی سلطنت بھی کھڑی کردی۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *