ایمل خان مہمند۔ پہلےافغان اور پختون جو مغل کےخلاف نہ صرف اٹھ کھڑے ہوئےبلکہ اورنگزیب کےدانت کھٹے کرکے اپنی سلطنت بھی کھڑی کردی۔

          

  جرنیل ایمل خان مہمند۔

مغل حکمران وقت گزرنے اور ہندوستان پر گرفت مظبوط ہونے کے ساتھ ساتھ مغرور اور ظالم ہوتے جارہے تھے۔اورنگزیب کے دور میںمغل حکومت کا سکہ کابل سے دہلی تک رائج تھا۔اس دوران ان کے کابل کےصوبہ دار(گورنر)مہابت خان ، کونڑ کے گورنر حسن بیگ اورپشاور کے گورنر  محمد آمین میرجملہ تھے۔محمد آمین دولت اور طاقت کے نشہ سے سرشار تھے۔ جبکہ ایسی حالت حسن بیگ کیبھی تھی۔تقریباً سال 1672ء کو حسن بیگ نے سافی قوم پر ظلم کی انتہا کردی تو ان کو سبق سکھانےکےلئے ہزارناؤ کے ایمل خانمہمند نامی ایک ادھیڑ عمر کے جوان اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھ دیگر اقوام جمع کرکے کنڑ میں حسن بیگ کو بری طرح شکستسے دوچار کیا۔جبکہ پشاور سے کابل کےلئے خیبر سے گزرنے والے راستہ کو بھی ایمل خان مومندنے بند کیا۔اس سے پہلے محمد آمینکے پشاور دربار میں آفریدی قوم کے ملکان کی بھی بے عزتی کی گئی تھی۔جس کی وجہ سے آفریدی بھی ایمل خان مہمند کی لشکرمیں شامل ہوئے۔کنڑ کے صوبہ دار حسن بیگ کی شکست کاسن کر پشاور کے صوبہ دار(گورنر)محمد آمین کو بہت غصہ آیا اورراستہ کھلوانے کےلئے اس نے ایک بڑی فوج کھڑی کی۔

مغل درباری مؤرخ مینو لکھتے ہیں یہ فوج ایک لاکھ پیدل اور چالیس ہزار سواراور توپ خانہ پر مشتمل تھی۔کابل جانے سے پہلے محمد آمیں نے ایمل خان مہمند کے ہاں ایک جرگہ بھیجا۔مگر ایمل خان نے یہ کہہکر مسترد کیا کہ اگر ہم آج مغل حکمرانوں کی بات مانے تو ہمیشہ کےلئے پختون انکی غیض و غضب اور ظلم برداشت کرکے زندگیگزارینگے۔جبکہ ایمل خان کو لگ رہاتھا کہ پہلی دفعہ پختون قوم اتفاق سے مغل حکمرانوں کے مظالم کے خلاف اکھٹے ہوئے۔جو بعدمیں پھر ایسا ممکن نہ ہوسکے گا اسلئے ایمل خان اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔جب بات نہ بن سکی تو فوج کو اس ترتیبسے کہ دائیں طرف ہاتھیوں کے رسالہ کی قیادت محمود خان جبکہ بائیں طرف توپ خانہ کے رسالہ کی قیادت مبارز خان اور درمیاںمیں پیدل فوج میں مغرور گورنر محمد آمین،لشکر لئے پختونوں پر چڑھ دوڑے۔اپریل 1672کو خیبر اور مہمند کےدرمیانی علاقہ لنڈیخانہ کے مقام پر مغل اور پختون دو بدو ایک دوسرے کے ساتھ تلوار کی زورآزمائی میں بر سر عمل ہوئے۔پہلی دفعہ پختونو کو مغل کےخلاف ایک دلیر اور نڈر جرنیل ایمل خان مہمند کی قیادت نصیب ہوئی تھی۔جرنیل ایمل خان مہمنداور نائب کمانڈر دریا خان آفریدیکی قیادت میں آفریدی،مہمند،ملاگوری اور شینواری غضب ناک شاہینوں کی طرح مغل فوج  پر جھپٹ پڑے۔اور دشمن پر قیامت برپاکی۔اس دوران ہاتھیوں کا رسالہ محمود خان خویشکی نے سامنے لایا جبکہ توپخانہ کو بھی حرکت دی گئی مگر اسکا ایمان،اسلام اورغیرت سے سرشار پختونوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔اور پختوں بے فکری سے لڑتے رہے کیونکہ انکا جرنیل انکے عین درمیان لشکر کی قیادتکرتے ہوئے تلورازنی میں مصروف تھا۔جسکی وجہ سے انکے فدائین ایک قدم پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔پختونوں نے ہاتھیوںکے رسالہ پر پہاڑوں سے پھتر پھینکنا شروع کئیے جس کی وجہ سے ہاتھی بے قابو ہوئے اور یہ دیکھ کر محمد آمیں علی مسجد کیطرف بھاگ گئے۔مؤرخین نے اس لڑائی کو واقع خیبر کا نام دیا ہے۔جس کے مطابق اس لڑائی میں محمد آمین کا بیٹا مرزا عبداللہ،بہنوئی مرزا سلطان کربلائی اور بیوی ہلاک ہوئے۔جبکہ بہن،بیٹی اور ماں گرفتار ہوئیں۔مگر کچھ مؤرخین کا اس میں اختلاف ہے کہ اسمیں محمد آمین کی ماں کی گرفتاری یقینی نظر آنے لگی تو انکے بیٹے نے ماں زندہ دشمن کے ہاتھ میں جانے سے انکو حود قتل کرنابہتر سمجھا۔پختون محمد آمین کے بیٹے کی اس عمل کو دیکھ کر غصہ ہوئے اور انکو بھی قتل کیا۔جس کے گواہ پشتو کے مشہورشاعر اور جنگجو خوشحال خان خٹک نے بھی اپنے اشعار میں تصدیق کی ہے۔کیونکہ وہ اس جنگ میں شامل تھے۔جبکہ آفریدی بھیتیراہ کے دریا خان آفریدی کی قیادت میں شامل تھے۔

ایمل خان مہمند۔

 

اسکے بعد مغل فوج کا ایک دستہ شینواروں کے علاقہ سے تاترہ کے راستہ بھاگ رہا تھا کہ ایمل خان کے لشکر کے کچھ لوگ جس میںخوشحال بھی تھے،نے آگیرلیا اور انکا کام تمام کیا۔کہا جاتا ہے کہ اس لڑائی میں چالیس ہزار مغل فوج لقمۂِ اجل بن گئے۔خوشحالخان اپنے اشعار میں اس واقع کو کچھ اس طرح یاد کرتے ہیں۔کہ

        آفریدو شینوارو زړه پهٔ ولجه خهٔ کړو

        ایمل خان مومند پهٔ جنګ او ولجهٔ دوانړو

ایمل خان مہمند کو سزا دینے کی عرض سے بادشاہ اورنگزیب نے جنرل شجاعت خان رعد کو لاؤ لشکر دیکر پشاور روانہ کیا۔کابل کاعلاقہ ہندوستان سے کٹ چکاتھا جسکی مغل حکمرانوں کی بڑی فکر تھی۔اس عرض سے شجاعت خان نے پختونو اور ایمل خان سےٹھکرلئیے بغیر کابل کےلئے خیبر کے بجائے علاقہ مہمند سے جانے کا انتخاب کیا۔لیکن اس کی خبر جب ایمل خان مہمند کو ہوئی تو اسنےبھی ٹکر لینےکےلئے لشکر کو علاقہ مہمند کےلئےروانہ کیا۔ان دونوں لشکروں کا سامنا مہمند کے علاقہ کڑپہ(گندھاب)میں1674کوہوا۔مغل لشکر کو اپنے علاقہ میں دیکھ کر مہمند قوم کےلئےیہ ایک تر نوالہ سے زیادہ ثابت نہ ہوا۔یہ ایسا تھا جیسا بھوکے شیر کواپنے مسکن ہی میں شکار مل جائے۔قبائل،مغل فوج پر حملہ آور ہوئے اور لشکر کو بہت نقصان پہنچایا۔اگلے دن تازہ دم لشکر مغلیفوج پر وخشی جانوروں کی طرح جھپٹ پڑے اور مغل فوج کے جنرل شجاعت کو مارڈالا۔شجاعت کی مدد کےلئے راجپوتو کا پانچ سوسواروں کا رسالہ اور توپخانہ جسونت سنگھ نے سامنے لایا مگر یہ بھی ان قبائل کی دلیری اور جذبہ کے سامنے ڈھیر ہوئے۔جسونتسنگھ تین سو سوار کھوکر دو سو سواروں کے ساتھ دوآبہ کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔جرنیل ایمل خان نے مغل حکمرانوں کیاجارہ داری کا خاتمہ کرکے آٹک تک اپنی حکمرانی کا سکہ رائج کیا۔ایمل خان مہمند کے ان کارناموں اور مغل افواج کی پے درپےشکستوں کو دیکھ کر بادشاہ اورنگزیب نےحود جولائی1674کو اٹک آکر حسن آبدال میں ڈھیرے ڈال دئیے۔کیونکہ آگے ایمل خان مہمندکی آٹک سے اُس پار راج کی وجہ سے اورنگزیب آگے جانے کی جرآت نہ کرسکے۔کیونکہ آٹک کے پار ایمل خان کے ساتھی خوشحالخان کی لشکر اس علاقہ کی زمہ داری لئے ہوئے تھے۔

دریا خان آفریدی۔

اورنگزیب نے دکن سے جنرال اغر خان کو ایمل خان مہمند اور دریا خان آفریدی کی سرکوبی کےلئے بھلایا۔اغر خان نے اس سے پہلےیوسفزائی کے خلاف کامیابیاں خاصل کی تھیں۔اغر خان کو دولاکھ روپے اورنگزیب نے دیکر روانہ کیا۔اغر خان نے پختونو کو پیسوںسے خریدنا شروع کیا اور کامیابی ملی جس کے بنا پر وہ کوہاٹ کے راستہ کابل پہنچ گئے۔پھر اورنگ زیب نے فدائی خان کو بھلایاجس نے جمرود میں اکے دُکے کامیابیاں حاصل کئیں جس کے بنا پر بادشاہ نے ان کو بھی بڑے انعاموں سے نوازا۔ مغلی جنرل اغر خاننے شمشیر خان اور مکرم خان کی قیادت میں ایک بڑی فوج پختونوں کے مقابلے کیلئے بھیج دی۔وہاں پختون ایک دفعہ پھر ایمل خانمہمند اور دریا خان آفریدی کی قیادت میں بھوکے بھیڑیوں کی طرح تیار کھڑے تھے۔جون 1676 کو دونوں کا سامنا مہمند سرزمیں کےعلاقہ خاپخ(خویزئی) میں ہوا۔شمشیر خان خاپخ کی اس لڑائی میں دریاخان آفریدی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔مغل لشکر اپنے جمعہ دارباجوڑ کے مغل گورنر کے ہاں پناہ لینے میں کامیاب ہوئی۔مختصر اورنگزیب ناکامی کے ساتھ 1677ءمیں ہندوستان واپس ہوئے۔ایمل خانمہمند اور انکے ساتھی دریا خان آفریدی پر لکھنے کےلئے ایک کالم بہت کم ہے۔اسلئے مختصر،تاریخ کا یہ گمشدہ بہادر اور نڈر جرنیل1689میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ایمل خان مہمند کےعلاقہ ہزارناؤ میں05-1601ء کے درمیان پیدا ہوئے۔جسکا تعلق مہمند کےزیلی قبیلہ خویزئی جبکہ خویزئی میں مسی زئی اور اس میں کوکوزئی سے تھا۔

  تحریر؛ نجات خان مہمند

0 comments
0 likes
Prev post: یومِ عرفہ اصل میں یومِ حج ہے۔۔۔ ایک عظیم اور یادگار دن کاسرگزشت۔​Next post: مولانا محمد علی قصوری کی علاقہ مہمند آمد اور 1916 کو شبقدرمیچنئی میں انگریز املاک پر قبائل کےایک حملہ کی روداد۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *