مولانا محمد علی قصوری کی علاقہ مہمند آمد اور 1916 کو شبقدرمیچنئی میں انگریز املاک پر قبائل کےایک حملہ کی روداد۔

تحریر؛نجات خان مہمند۔

مولانامحمد علی قصوری کاتعلق لاہورسےتھا۔قصوری صاحب شیخ الہند  محمود الحسن کی قیادت میں انگریز سےآزادی حاصلکرنےکےلئےشیخ الہند کی تحریک میں شامل ہوکرپہلےعبیداللہ سندھی کےپاس کابل آئے پھر وہاں صلاح مشورےکےبعد مولاناقصوری کوقبائل کی سرپرستی کےلئےعلاقہ چمرکنڈ(مہمند و باجوڑ) بھیج دیاگیا۔قصوری صاحب نے یہاں اپنےبیتےلمحات پر ایک تصنیف بناممشاہدات کابل و یاغستانلکھ دی۔اس کتاب سے ایک اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کرتےہیں۔

لیکن قارئین کرام کی دل چسپی کے لئے دو ایک جو مجھے اچھی طرح سے یاد ہیں درج کرتا ہوں۔ ایک دفعہ ہم نے مچینی کے تھانہ پرشب خون مارنے کا ارادہ کیا۔ مچنئی کا تھانہ شب قدر کے قلعہ کی حفاظت میں ہے اور چند میل دور علاقہ کے اندر واقع ہے۔ اس کیحفاظت کے لئے انگریزوں نے بر قائے ہوئے کانٹوں والے تار لگارکھے تھے اور ان کے قریب جاتے ہی انسان تاروں کی طرف کھنچ کر گرپڑتاتھا ادر بر قی صدمہ سے جان بحق ہو جاتا تھا۔ میں نے پہلے تو ایسی قینچیاں بنائیں جو ان تاروں کو کاٹ سکتی تھیں۔ چنانچہان کو کاٹ کر راستہ بنا یا پھر تجویز کی گیئ کہ شب خون مارنے والی جماعت کے دوحصے کئے جائیں چھوٹا حصہ میچنئی کےتھانے کو گھیر کر فائر کرنا شروع کر دے اور بڑا حصہ شب قدر اور میچنئی کی درمیانی پختہ سڑک کے دونوں طرف گھنے درختوںمیں چھپ جائے۔ رات اندھیری تھی۔ میچنئ کے تھانہ والوں نے شب قدر کے قلعہ کو شیشہ کے ذریعہ حالات سے اطلاع دی۔ وہاں سےکمک ان کی مدد کے لئے گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلی ۔ ان کے ساتھ کئی خچریں کارتوسوں کی تھیں۔ جس وقت رسالہ عین وسط میںپہنچا تو ہمارے آدمیوں نے کمین گاہوں سے اس پر فائر کرنے شروع کئے۔ رات کی تاریکی نے سواروں کو پریشان کر دیا اور وہ تتر بترہو کر رات کی سیاہی میں غائب ہو گئے کارتوسوں کی لدی ہوئی خطریں وہیں رہ گئیں۔ ان میں سےبعض زخمی ہوگئی تھیں لیکن ہمسب کا رتوسوں کو لے کر واپس آگئے ہیں اپنے منصوبہ کی کامیابی اور انگریز کی ہزیمت  پر مسرت ہوئی ۔ چند روز بعداس شجون کیانگریزی تفصیل پڑھ کر ہمیں بہت ہنسی آئی کہ انگریز اپنی ہزیمت کو چھپانے کے لئے کیسے کیسے جھوٹ اختراع کرتا ہے۔ اس میںیہ بھی تھا کہ انگریز نے ہماری ناکہ بندی (Blocade) کر دی ہے ۔ اس ناکہ بندی کی کیفیت یہ تھی کہ ہمارےہاں  یہاں ہندوستان کیتمام تجارتی اشیاء پشا در سے قدرے قلیل زیادہ نرخ پر ملتی تھیں اور یہ زیادتی بھی اسلیے تھی کہ تمام سامان گدھوں اور خچروںپر لد کر آتا تھا۔ ہرقسم کا کپڑا جس کی ہمارے یہاں کھپت تھی بافراط ملتا تھا۔ یعنی چینی، چائے، دالیں پشاور کی سبزیاں وغیرہانگریزی ادویہ، جاپانی کھلونے، مٹھائیاں ہندوستانی اور انگریزی دونوں قسم کی۔ غرض استعمال کی تمام چیزیں یعنیConsumer’s Goods) سبھی ملتی تھیں لیکن انگریز برابر اخباروں میں یہی ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا کہ ہماری ناکہ بندی سےیاغستانی قبائل تنگ آگئے ہیں۔ بالاخر ایک دن یہ خبر شائع ہوئی کہ قبائلیوں نے معافی مانگ لی ہے اور آئیندہ نیک چلنی کی ضمانتدی ہے اس لئے ان کی ناکہ بندی ختم کردی گئی ہے۔ قصہ مختصر انگریزی اخبارات کی خبریں ہمارے متعلق ہمارے لیے خاص تفریح کاسامان مہیا کرتی تھیں۔

بندوق کے نشانہ میں قبائلیوں کی مہارت کا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور جرمن نشانچیوں کا کہنا تھا کہ یہ لوگ دنیا کے بہترین نشانچیوںمیں شمار ہو سکتے ہیں ۔ چناں چہ یہ تو کئی دفعہ ہوا کہ رات کے وقت انگریزی تھانہ سے کسی گارڈنے سگریٹ سلگایا ۔ ہمارےنشانچی نے سگریٹ کی روشنی دیکھ کر گولی چلائی۔ سپاہی کے منہ سے گولی پار ہوگئی اور وہ وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔

1 comments
5 likes
Prev post: ایمل خان مہمند۔ پہلےافغان اور پختون جو مغل کےخلاف نہ صرف اٹھ کھڑے ہوئےبلکہ اورنگزیب کےدانت کھٹے کرکے اپنی سلطنت بھی کھڑی کردی۔Next post: پاکستان میں موروثی سیاست بہت کامیاب ہوتی ہے۔

Related posts

Comments

  • Abbas Khan Mohmand

    July 5, 2023 at 5:14 am
    Reply

    بہت عمدہ تحریر مولانا قصوری کے بارے میں علم میں اضافہ کرنے پر آپ کے بے حد مشکور ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *