پاکستان میں موروثی سیاست بہت کامیاب ہوتی ہے۔

 

ہمارےسترسالہ جمہوری عمل کی ناکامی کاہرپہلو سےجائزہ لیا جارہاہے تاکہ معلوم کرسکےکہ ہم کیوں دیگر اقوام کی طرح ترقی کی بجائے پستی کی طرف گامزن ہے۔ہر دور اور ہر موڑ پر کہیں نہ کہیں ایک بڑی غلطی کو پکڑا جاتاہےمگر ان سب کےاندر سیاسی جماعتوں پر بھی یہ الزام لگایاجاتارہاکہ ان میں موروثیت ہے۔نسل درنسل جماعتوں کی سربراہی ان کی اولادوں کو منتقل کی جاتی ہے۔اب اس موروثی سیاست  کےخلاف پاکستان تحریک انصاف اٹھ کھڑی ہوئی اور سٹیس کو یعنی موروثی سیاست کے خلاف نہ صرف نعرہ لگایابلکہ عملی طور پر بھی کافی حدتک کردکھایا۔اس نعرہ کو ہر مکتبہ فکرسےتعلق رکھنےوالوں نےقبول کیااور لوگ تحریک انصاف کے اس بیانیہ کےساتھ کھڑے ہوگئے۔

نو مئی کےبعد جب پارٹی کےاندر کچھ پیراشوٹر اور ابن الوقت سیاستدانوں پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سےدباؤ آیاتو ان لوگوں نے ایک دن جیل کی سختی سےڈر کر راہیں جدا کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اب پاکستان تحریک انصاف کمزور ہوئی لیکن ورکرز جو اب بھی ڈٹ کےکھڑےہیں ان میں پارٹی کی مستقبل کےلئےنئی قیادت بارے پریشانی دیکھی جارہی ہے۔جبکہ دوسری طرف اگر عمران خان بھی اسی طرح موروثی سیاست پر یقین رکھتےاور کوئی سیاسی جانشین اپنےخاندان سےمقررکرتےتھے تو نہ صرف ورکرز مایوس اور تذبذب کا شکار نہ ہوتے بلکہ کچھ ابن الوقت اور پیراشوٹر سیاستدان اپنے مستقبل کی خاطر ڈٹ کے کھڑے ہوجاتے کیونکہ ان لوگوں کو اگلی دفعہ اقتدار میں آنے کا فکر رہتا۔اسی طرح عمران خان کے کسی سیاسی جانشین کےہونے کی وجہ سے پارٹی کا مستقبل تاریک نظر نہ آتااور نہ ورکرز سمیت اپر اور مڈل لیڈرشپ میدان سےبھاگنے کی کوشش کرتے۔

لیکن اگر دیکھا جائےتو ہمارےملک میں سیاسی ترویج و ترقی اور ملکی ترقی میں موروثی سیاست رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔لیکن یہی موروثی سیاست اگر دوسری جماعتوں میں موجود ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ یہ کہ جماعت کی بھاگ دوڑ کسی دوسرے خاندان کے پاس نہ چلا جائے ۔ لیکن دوسری طرف موروثی سیاست کےخلاف پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ سے نبردآزما ہونے اور لیڈرشپ کو تتربتر ہونےسےبچانےکے لئےبوجہ مجبوری موروثی سیاست کی طرف گامزن ہوجائیگی۔

پاکستان میں موروثی سیاست میں فائدہ یہ بھی ہوتاہے کہ کوئی قوت اتنی آسانی سےاس کو ہاتھ نہیں لگاسکتی کیونکہ انکی چوٹی کےلئڈرشپ سب ایک گھر یا نظریہ کےہوتےہیں اور جماعت کا مرکز کشش یہی ہوتےہیں۔دوسری اہم بات یہ کہ یہی فیمیلیز لیمیٹڈ جماعتوں کے اسٹیبلیشمنٹ کےاندر تعلقات ہوتے ہیں جو ان کو بروقت آگاہ بھی کرتےہیں اور مشکل میں پھنس جانے کے وقت انکی مدد بھی کرتےہیں۔

غیرموروثی اور خالص جمہوری جماعتوں کو کنٹرول کرناآسان ہوتاہے کیونکہ انکا سربراہ ایک مقررہ مدت کے بعد تبدیل ہوتاہے جس کا جماعت کی پالیسیوں پر اثرپڑتاہےجبکہ ایسےلیڈروں کو بھی لالچ کےذریعہ آسانی سے قابو کیاجاسکتاہے کیونکہ وہ مستقل طور پر اپنی جماعت کا سربراہ نہیں ہوتا۔

ایسی ہی کچھ مثالیں مسلم لیگ (ق) ،ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی ہیں۔جنکو آسانی سے کنٹرول کیاجسکتاہے۔ جبکہ ساتھ ساتھ اب یہی حال پاکستان تحریک انصاف کا بھی ہوگیاہے۔

مسلم لیگ ق ایک حد تک ایک موروثی جماعت تھی مگر ان کے اندرسب لیڈرز ایک وقت پر پارٹی میں آئے اور ہر کوئی فیصلہ پر اثرانداز ہوسکتاتھا۔اسلئےاس کو توڑنے میں مشکل نہ رہی۔ ایسا ہی ایم کیو ایم کےساتھ بھی ہوا اور جماعت اسلامی بھی ہر نئے امیرکےساتھ رنگ بدلتی رہتی ہے۔یہ لوگ اس مصداق پر پورا اترتےہیں کہ ؎

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم     

نہ ادھر کےرہے نہ ادھر کے رہے۔            

اب ایسا پاکستان تحریک انصاف کےساتھ بھی ہورہاہے لیکن اگر اس جماعت کےاندربھی موروثیت ہوتی تو انکو توڑنا مشکل ہوتالیکن اگر اب بھی اس میں ایسی کوئی عنصر پیدا کی گئی تو پارٹی کافی حد تک توڑ پھوڑ سےبچ سکتی ہے۔میں ذاتی طور پر قطعیً موروثی سیاست کےخلاف ہوں مگر ہمارےملکی حالات ہمیں ایک غلط سمت یعنی موروثی سیاست کے پیروکار بنانے پرتلے ہوئے ہیں۔

تحریر؛ نجات خان مہمند۔

0 comments
2 likes
Prev post: مولانا محمد علی قصوری کی علاقہ مہمند آمد اور 1916 کو شبقدرمیچنئی میں انگریز املاک پر قبائل کےایک حملہ کی روداد۔Next post: خان آف مہمند۔خان آف لال پورہ ۔۔۔چارصدیوں سےچلا آنےوالا خان آف مہمند فیملی

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *