خان آف مہمند۔خان آف لال پورہ ۔۔۔چارصدیوں سےچلا آنےوالا خان آف مہمند فیملی

 

تحریر؛نجات خان مہمند۔

ملک مورچہ لال پورہ کے ”خوانین“ اور  خان خیل خاندان کے جدامجد اور انہی کی وجہ سےانکےخاندان کو مورچہ خیل کےنام سےیاد کیاجاتاہے۔

ملک مورچہ کا تعلق مہمند کےزیلی قبیلہ ترکزئی کےشاہ منصور( شمسرخیل) کے درماکور سےہیں۔یہی شمسرخیل اب بھی دریائے کابل کےدائیں کنارے میچنی کےباالمقابل  قلعہ ڈکہ سےکچھ میل فاصلہ پر آباد ہیں۔ اس زمانے میں ملک مورچہ کے آبائی علاقہ یہی ہواکرتاتھا۔دریائے کابل کے دائیں کنارے پر، قلعہ ڈکا کے نیچے تقریباً تین چوتھائی میل کے فاصلے پر، جہاں سریکن زیارت کے قریب گھاس کے چند ٹیلے ان کے آبائی گھر کی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ایک روایت مشہور ہے کہ ملک مورچہ نےیہاں ایک روحانی پیشوا اور بزرگ شخصیت کےمالک مرزادِ ولی کی ایک خاتون مریدنی یا مربی کو خویزئی قبیلہ کےڈاکووں کےقبضہ سے چھڑایاجسکےبدلے میں اس نےملک مورچہ کےلئےدعا کی اور انکی وہ دعا قبول ہوئی۔

ملک مورچہ مغل بادشاہ اکبر کےہم عصر رہےہیں۔ ملک صاحب 1586 عیسوی میں دوسرے غوریاخیل( مہمند، داؤدزئی، خلیل ) کےکچھ لوگوں کےساتھ مل کر پیر روخان کے بیٹے جلالہ کو اپنا سربراہ مقررکرکےمغلوں کے خلاف بغاوت کی۔ ویسے مغلوں اور افغانوں کی دشمنی پہلےدن سےہی چلی آرہی تھی۔مغل حکمران ظلم کرتےتھےاور افغان یعنی پختون انکی حکمرانی اور غلامی نہیں مانتے تھے۔ملک مورچہ اور انکے ساتھیوں نےباگرام(پشاور) میں مغل قلعہ پر یلغار کی۔اس سلسلے میں ملک مورچہ اور انکےساتھیوں نےمغل فوج کے باگرام قلعہ کےفوجدار سید کامل کو بھی ہلاک کیا اور قلعہ کو لوٹ لیا۔

بعد میں اکبربادشاہ نےملک مورچہ کو رام کرکےانعامات اور پیسےدئیے۔مغل بادشاہ کےاس نرم رویہ کو دیکھ کر وہ دیگر ساتھیوں کےساتھ مغل بادشاہ اکبر کےہمنوا بن گئے۔اس کے بدلے اکبربادشاہ نےان کو  ڈکہ کےمغلیہ قلعہ کا کماندار بنایا۔ان اختیارات کےملنےکےبعد ملک مورچہ پورے شمسرخیل اور ترکزئی قبیلہ کےاختیارمند بن گئے۔

ان اختیارات کےعلاوہ ملک مورچہ سٹریٹیجکلی ایک اہم علاقہ میں رہتےتھےجہاں کابل سےپشاور تک تجارتی راستےبھی گزرتےتھے۔انہوں نےلوگوں اور تاجروں کو تنگ کرناشروع کیا اور ٹیکس وصول کرنےلگے۔ان کو رام کرنےکےلئےپشاورکے مغل گورنر نےان کو ان راستوں پر تجارتی قافلوں کی رسد ممکن بنانےاور انکی حفاظت کےطور پر ٹیکس لینےکی اجازت دیدی۔ان مراعات اور اختیارات کو دیکھ کر انکےقبیلہ کےکچھ سرکردہ لوگ ان کے مخالف بن گئے۔

ملک مورچہ کی وفات کےبعد انکےبیٹے ملک قلندرخان اور بعد میں قلندرخان کی انتقال کے بعد انکےچھٹےبیٹے ملک شات خان اپنے جاگیر کےوارث بن گئے جبکہ انکےدیگر بھائی ننگرہار کےدیگر علاقوں میں پھیل گئے۔اب ملک شات خان مغل بادشاہ شاہ جہان کےباج گزار بنے۔ملک شات خان کو شینواریوں نےگھات لگا کر قتل کیاتو انکابیٹا ملک مقرب خان اپنےقبیلہ اور علاقہ کے سربراہ بن گئے اور سب اختیارات اپنےہاتھ میں لےلئیے۔ملک مقرب کو مغل بادشاہ اورنگ زیب نےمغل سلطنت کا ایک عہدہ دار مقررکیا۔اس کے ساتھ ساتھ مقرب خان نےمرزاد ولی کےایک مرید مازوب بابا کےکہنےپر اپنے گاؤں لال پورہ کو دریائےکابل کےبائیں کنارے پر لیکروہاں آباد ہوئے۔مازوب بابا کا مزار پرچاؤ سے نیچے ہیں۔

ڈبلیو۔آر۔ایچ میرک کا بیان کردہ خان آف لال پورہ کا شجرنسب۔

ملک مقرب خان کی دو بیویاں تھیں۔ان میں ایک کا نام جہانہ جسکا تعلق مورچہ خیل فیملی سےتھااور ایک عربہ جو خویزئی قبیلہ سےتعلق رکھتی تھی۔جہانہ سےملک مقرب کے تین بیٹے احمدخان، لشکرخان اور فتح خان تھے۔اس وجہ سے مورچہ خیل خاندان میں جہانہ کورنامی ایک شاخ بن گیا جبکہ عربہ سےملک مقرب خان کے تین بیٹے زین خان، پائندہ خان اور حکیم خان تھے۔اس وجہ سے مورچہ خیل خاندان کا دوسرا شاخ جہانہ کوربن گیا جسکو خان خیلہ بھی کہاجاتاتھا۔

نادرشاہ افشار دہلی کےتخت پر 1736 کےدورون حملہ آور ہوئے۔ان کےلشکر میں مقرب خان کےبڑےبیٹے اور عربئی کور سےتعلق رکھنےوالے زین الدین خان مہمند بھی انکےساتھ تھے اور ایک دستہ کی قیادت کررہےتھے۔اس کےساتھ ساتھ زین خان کےدو بھائی حکیم اور پائندہ خان بھی احمد شاہ درانی کےساتھ تھے اور کشمیرمیں شہید ہوئے۔

اس طرح ہندوستان میں کامیابیاں ملنےکےبعد زین خان نادرشاہ کےجانے کےبعد احمد شاہ درانی کےساتھ مل گئے اور احمد شاہ درانی نےزین خان کو سرہند اور پنجاب کا گورنرمقررکرکے خودافغانستان چلےگئے۔زین خان مہمند کی غیرخاضری کافائدہ اٹھاتےہوئےناوگئی کےخان جناب سردارخان نے کمالی کے علاقہ میں آباد ترکزئی قبیلہ کےگھروں اور چاردیواری کو پامال کیا۔اس واقع کےفوراً بعد مہمند قوم نےایک نمائدہ زین خان کو خبردینےکےلئےسرہند بھیجا۔کہا جاتا ہے کہ خبردینےوالا تھکا ہواموٹے کمبل میں ملبوس اور گھاس کےجوتے کا جوڑا دروازے پر چھوڑ کر ‘دربار’ ہال میں داخل ہوا اور زین خان کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ دیکھنے والے بھی حیران رہ گئے۔زین خان نے قاصد کو اس کے قبائلی لباس سے پہچانا اور اس سے پوچھا کہ ہال کے ایک کونے میں ناچنے والی ان لڑکیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ قاصد نے دھیمے آواز میں جواب دیا کہ یہ لڑکیاں اتنی اونچی آواز میں نہیں گاتی کہ جتنی اونچی چیخیں مہمند کی عورتیں اس وقت لگا رہی تھی جب ناوگئی خان انکوباجوڑ لےکےجارہاتھا۔

 

جان برکی کا لیاگیاتصویرجس میں پیچھےکرنل واربرٹن اورسفید کپڑوں میں ملبوس خان آف لال پورہ ہے(یہ تصویر1879 میں کی گئی ہےاور صرف خان آف لال پورہ کا نام لکھاہےشائد یہ بارام خان یا سعادت خان کا کوئی بیٹا یا پوتاہو)

یہ سن کر گورنرزین خان مہمند فوراً اپنےلاؤ لشکرکےساتھ علاقہ مہمند روانہ ہوئے۔مہمند پہنچ کر زین خان مہمند نےناوگئی خان کو سبق سکھانےکےلئےناوگئی پر حملہ کیا۔ اس حملہ میں زین خان مہمند نےناوگئی کےخان سردارخان کو گرفتار کرلیا۔اور بعد میں انکو ہھانسی دےکرہلاک کیا۔

اسکےبعد 1763 میں پانی پت کےمقام پر زین خان مہمند کو ہندوؤں اور سکھوں نےشہیدکیا۔اسکا بدلہ لینےاحمدشاہ درانی واپس ہندوستان پر حملہ کےلئےنکلے۔

زین خان مہمند کی شہادت کےبعد انکے بیٹے بالوت خان انکی جگہ لال پورہ کےخان مقرر ہوئے۔بالوت خان کےتین بیٹے تھے جن کےنام ارسلا خان، سعداللہ خان اور معاذ الله خان تھے۔ بالوت خان کےبعد انکےبڑےبیٹےارسلاخان 1782ء کو انکی جگہ خان مقررہوئے۔بائیزئی کےدیندارخان ارسلا خان کےخلاف اٹھ کھڑےہوئےاور ایک خونریزجنگ ہوئی۔ان دونوں نےایک دوسرے کےوالدین کا قتل کیاتھا۔ارسلا خان نےاپنی بہن کا ہاتھ ناوگئی کے خان سردارخان کےبیٹے کو دی۔ زین خان نےجب ناوگئی کےخان سردارخان کوگرفتارکیاتو ناوگئی مہمند کےقبضہ میں آگیا مگر ارسلا خان نےبہن کی شادی سردارخان کےبیٹے سے کراکےناوگئی جہیزمیں انکو واپس دیدی۔

ارسلا خان نے1789میں تیمورشاہ کےپشاورمیں خزانہ کو لوٹا اور کابل بھاگ گئے۔تیمورشاہ نےسبق سکھانےکےلئےلال پورہ پر حملہ کیامگر ارسلاخان پہاڑوں میں روپوش ہوئے۔تمیورشاہ کے لالپورہ پر حملہ کا بدلہ لینےکےلئےارسلاخان نےکابل اور پشاور کا راستہ بند کیا اور اس پر اپنی طرف سےٹیکس وصول کرنےلگے۔ارسلاخان نےتیمورشاہ کےناک میں دم کررکھاتھا۔اس لئےتیمورشاہ نےارسلاخان کو بہانہ سےکابل بلاکرگرفتارکیااور 1792 کو ارسلاخان کو ہاتھی سےباندھ کر ہلاک کیاگیا۔

   ارسلاخان کی ہلاکت کےبعد انکےدونوں بھائیوں معاذاللہ خان اور سعاداللہ خان میں خان بننےکےلئےرسہ کشی شروع ہوئی۔ بعد میں سعداللہ خان نےمعاذاللہ کو قتل کرکےخان آف لال پورہ بن گئےاور افغانستان کی حکمرانی کےلئےجدوجہد کرنےوالے امیردوست محمد خان کےہمنوابن گئے۔اسی سعداللہ خان کو بعد میں انکےبھتیجےاور معاذاللہ خان کےبیٹےافضل خان نےقتل کرکےاپنےوالد کا بدلہ لےلیا۔سعداللہ خان کےبعد انکی جگہ انکے بڑےبیٹے سعادت خان نےلےلئ اور یہی سعادت خان ہی تھےجنکی بیٹی کی بیاہ افغانستان کےحکمران امیردوست محمد خان کےبیٹےامیرشیرعلی خان سےہوئی۔

سعادت خان نےشبقدرمیں سکھ قلعہ پر 1840 کو حملہ کیاار سکھوں نےقلعہ کےدروازےکوقصوروار ٹھہراکرسو سال کےلئےقیدکیاگیا۔

نوروز خان کےبیٹے۔

سعادت خان کےبیٹےنوروز خان، فتح خان اور سلطان خان بھی بڑےخوانین تھے اور انگریز کےخلاف لڑتےتھے۔نوروز خان اور سلطان خان کےسوتیلےبھائی اور سعادت خان کےبیٹے بہرام خان نے1873 کو میجرمیکڈونلڈ کومیچنئی میں قتل کرکے نام کمایااور پھر علاقائی گیتوں میں انکو اس طرح یاد کیا جانےلگا کہ ۔۔۔

“ توره بارم خانه نوابا سنړي د غوړې کا چه باد ئےرپوینا نوابا“

اسی طرح سعادت خان کی اولاد نےانگریزکو تگنی کےناچ نچایا جن میں نوروز خان اور سلطان خان پیش پیش تھے۔1850سےلیکرب1880 تک اس خاندان نےشبقدر اور پشاور سمیت افغانستان میں انگریز پر بےشمار حملےکئیے۔امیرشیرعلی خان کی حکمرانی کےاختتام پر نوروز خان جلاوطن ہو کر گندھاب حلیمزئی آئے اور یہاں 1877 کو انتقال کرگئے۔

2 comments
0 likes
Prev post: پاکستان میں موروثی سیاست بہت کامیاب ہوتی ہے۔Next post: بچپن یعنی نوخیز جوانی کی میٹھی یادیں۔اسلامیہ کالج کا ہاسٹل قیوم منزل۔

Related posts

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *