بچپن یعنی نوخیز جوانی کی میٹھی یادیں۔اسلامیہ کالج کا ہاسٹل قیوم منزل۔

 

بچپن یعنی کہ نوخیز جوانی کی یادیں۔ تقریباً بیس سال بعد اپنے ہاسٹل کا اچانک وزٹ کیا۔اسلامیہ کالج اور اسکے ”قیوم منزل“ ہاسٹل کو دیکھنے آیا۔ بہت پرانی یادیں اچانک تازہ ہوئیں اور میں نے واپس اپنے آپ کو 2003-2005 میں پایاں جہاں نہ کوئی انٹرنیٹ نہ کوئی سوشل میڈیا ہواکرتاتھا۔ مین گیٹ میں ایک عدد ٹیلی فون سیٹ ہواکرتاتھاجس سےکال کرناممکن نہں تھا جبکہ گھرسے ہفتہ میں ایک بار کال آتاتھا۔جب ہفتوں بعد گھر سےکوئی کال کرتاتھا تو گیٹ کے ساتھ بیٹھے چچا آواز لگاتاتھا کہ کمرہ نمبر”27“ سے نجات خان مہمند کو بلاؤ انکا کال آیا ہے۔آہ! یہ آواز ہمارے کانوں کو کتنی اچھی لگتی تھی۔اسکا اپنا ایک مزہ اور سرور ہوتاتھا۔
آج پشاور یونیورسٹی میں اپنے ایم فل کی تھیسس کی دفاع سے فراغت کےبعد سوا ایک بجہ جمعہ کی نماز ادا کرنےکی غرض سے اسلامیہ کالج کےمسجد جانے کا اتفاق ہوا۔جاتے ہوئے گرانٹ ہاسٹل کےساتھ قیوم منزل ہاسٹل کےسامنےسےگزرہوا۔گزرتےہوئےاچانک ہاسٹل پر نظر پڑی۔ پرانی یادوں میں اچانک کھوکر نہ جانے کیا سوچ کر میں نے اپنے آپ کو ہاسٹل کےمرکزی دروازہ کے اندر کھڑاپایا۔سوچوں میں گم اتنی سرعت اور اعتماد کےساتھ میں اندرداخل ہواکہ میں گیٹ پر کھڑے چوکیدار کےپاس تھا۔ اس نےاٹھ کرسلام کیا۔ہمارے وقتوں میں ان ہاسٹلوں میں ہر کوئی داخل ہوسکتاتھا مگر بعد میں طلبہ کےعلاوہ کسی کو داخلہ کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔اب ان  قوانین کی قیدوبند کاخیال ذہن میں رکھے بنا میں نےسامنے کھڑے چوکیدار سےکہا کہ میں اٹھارہ سال بعد ہاسٹل آیا ہوں اور میں اس ہاسٹل کا پرانا رہائشی ہو۔چچا یہ سن کر بہت نرم لہجہ کےساتھ گویاہوئے اور آدب سےپیش آئے۔ میں نے اندر ہاسٹل اور اپنا کمرہ دیکھنے کی التجا کی تو کہنے لگے کہ یہ آپکا اپنا ہاسٹل ہے۔یہ سن کر ساتھ کھڑے طلبہ بھی عجیب نظروں سے دیکھنےلگے مگر ان طلبہ کی خیرانگی مجھے باالکل بھی اپنی طرف کھینچ نہ سکی جبکہ ہاسٹل سےجڑی یادیں بہت سرعت کےساتھ دماغ میں تازہ ہونےلگی اور میں نے ہاسٹل کے مین لان کےساتھ فوارے کےقریب کھڑے اپنے آپ کو اسلامیہ کالج کے ایف ایس سی کے سٹوڈنٹس کی حیثیت سےپایا۔آہ ! بس یادیں تھیں اور ہم تھے۔ ڈائنگ ہال سامنے تھا اور دوپہر کا وقت تھا گویا وہی 2004/05 کا وقت لگ رہاتھا اور عین ڈائنگ ہال میں لنچ کی گھنٹی بجنے کا وقت ہورہاتھااور میں ڈائنگ ہال کی گھنٹی کا انتظار کررہاتھا کہ کب بجےگا تاکہ کھانےکی میز پربیٹھنےکےلئےسیٹ پکڑ سکوں مگر اس لمحہ اچانک آنکھوں کو جھپکی دیکر میں واپس 2023 میں آیا۔
کیا وقت تھا۔ہم بہت کم عمر تھے کہ سیکنڈ ائیرتک چہرے پر حجامت بھی نمودار نہیں ہوئی تھی۔یوں کہیں کہ ہم نوخیز جوانی میں قدم رکھ رہےتھے جب ہم اسلامیہ کالج کے ایف ایس سی کے طالب علم تھے۔

 

کمرہ نمبر 27 کا لان سےنظارہ

ہاسٹل کی بھی عجیب زندگی تھی۔آٹھ بجےکےبعد مرکزی دروازہ بند ہوجاتاتھااور کھاناکھانےکےبعد نو بجےسےبارہ تک سٹڈی ہاورز ہوتے تھے جبکہ وارڈن اور پراکٹر نگرانی بھی کیاکرتےتھے۔ عبداللہ مردان میرا رومیٹ رات دیر کو چوری چپکےنکلتےتھے اور اپنے ساتھ پراٹےلیکر پہلے کڑکھی سےآواز دیتے تھے کہ میں دیوار پر چڑھ رہاہو تاکہ روشندان سےاندر چلانگ لگاکر چچاکو پتہ لگے بغیر میں کمرےمیں واپس آجاؤ۔ عبداللہ اکثر روشندان تک چڑھ کر میرےبستر میں دھڑام سےچلانگ لگاتے تھے۔
اب میں ہاسٹل کےدرمیان میں فواارے کےساتھ کھڑا تھا کہ اس لمحہ

ہاسٹل کے درمیان فوارے کےساتھ جہاں ڈائننگ ہال عقب میں نظر آرہاہے

کو یاد کررہاتھا کہ جب 2005 میں مارچ میں امتحان کی تیاریوں کی خاطر فری ہونےکےبعد ہم واپس اپریل میں ہاسٹل آئے تھے۔اب ہمارہ بہت کم عرصہ اس ہاسٹل میں رہ گیا تھا۔سارے طلبہ اپنےکمروں میں سوئے ہوئے تھے کہ دوپہر کو کچھ سینئیر شرارتی ساتھیوں نے مل کر ہرکمرے سے ہر طالب علم کو سوتے ہوئے پاؤں اور ہاتھوں سےپکڑ کراٹھاتے اور مین فوارے کے خوض میں پانی جمع کرنےکے بعد اس میں ڈالتے تھے۔میرےساتھ بھی دوستوں نےایسا کیا۔ مجھے تو اچھا نہیں لگ رہاتھا مگر ٹھیک اٹھارہ سال بعد اس فوارے کےساتھ کھڑے ہوکر جب ان لمحات کو یاد کررہاتھا تو رونا آرہاتھا کیونکہ پرانی یادیں اور پھر نوخیز جوانی کی یادیں جب ہماری کل ملکیت اور بدمعاشی صرف گھر سےنکل کر ہاسٹل آنااور یہاں ایک محدود دنیا اور محدود سوچ کے ساتھ رہتےتھے۔اب وہی فوارہ اور وہی ہاسٹل وہی لمحات آنکھوں کےسامنے تھے مگر اس وقت کا ایک بھی طالب علم سامنے نہیں تھا۔جب چوکیدار سےپوچھا کہ چچا سیراج اب کہا ہوگا تو کہنےلگا کہ وہ کب کو ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔

کمرہ نمبر ستائیس کےباالکل سامنے

اب ساتھ کھڑے طلبہ کو اس فوارے کےساتھ ایک آدھ تصویر لینے کی التجاکی تو اس نےمیرے کیفیت کو بھانپ کر جٹ سے ”ہاں“ کی حامی بھرلی اور تصاویر لینےلگے۔اب میں اپنے کمرہ نمبر ستائیس کی طرف چلنےلگاجب قریب آیا تو اسکو تالا لگا ہواتھا۔ بدقسمتی سےاپنےکمرے کونہ دیکھ سکامگر قریب کمرہ نمبر چھبیس کو جھانک کر دیکھاجہاں طلبہ موجود تھے۔
اب مجھے اپنے آپ پر قابو پانامشکل تھا اور اگر مزید ٹھہرتاتو شائد دھاڑیں مارمارکر رونا شروع کردیتا اسلئے نماز جمعہ کےلئے وقت پر جانے اور یادوں کےسمندر میں مزید ڈوبنےسےپہلے ڈائننگ ہال کا وزٹ ترک کرکےواپس آیا۔گیٹ پر چچا کےساتھ ہاتھ ملا کر وہ بہت خندہ پیشانی سےہم کو رخصت کرگیا اور میں سیدھا مسجد کی طرف آیا۔مسجد وہی تھا ،وسعت وہی تھی مگر مجھے سب عجیب لگ رہاتھا۔وہی نمازی، وہی شور و غل اور چہل پہل باالکل نہیں تھا۔ اور نہ وہ امام صاحب جو اردو میں بڑی نرم مزاجی اور خوبصورت آواز کے ساتھ وعظ کیاکرتاتھا۔ سب نمازی بہت کم عمر اور چھوٹے تھے۔امام صاحب بھی کم عمر اور پشتو میں چار،پانچ منٹ تک وعظ کی اور پھر جماعت کھڑی ہوئی۔

1 comments
7 likes
Prev post: خان آف مہمند۔خان آف لال پورہ ۔۔۔چارصدیوں سےچلا آنےوالا خان آف مہمند فیملیNext post: مہمند قوم کےلیجنڈز جو تاریخ کےاوراق سے گم گردئیے گئےہیں۔

Related posts

Comments

  • Bashar khan

    October 8, 2023 at 7:36 pm
    Reply

    The best ever wording. Brother! keep it up.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *