مہمند قوم کےلیجنڈز جو تاریخ کےاوراق سے گم گردئیے گئےہیں۔

 

 

(نجات خان کی تصنیف ؛یاغستان کا غازی سےایک اقتباس)

اسکےساتھ کوڈاخیل قبیلہ میں ماصل غازی کےہم عصر بازوان ملک بھی بڑےزورآور اور علاقہ کےسرکردہ ملک تھے۔ہر استعماری قوت کےخلاف اٹھ کھڑےہوتےتھے۔غازی نجم الدین کےبعد انکے مریدان سلام پورباچا،بابڑہ ملا اور چکنور ملا نے جب 1914 کو شبقدر پر حملہ کیا تو اقراب ڈاگ کا علاقہ میدان کارزار بن گیا جس میں بازوان ملک کا بیٹا ملک خان جان بھی شہادت کے اعلٰی مرتبہ پر فائز ہوئے۔ملک بازوان کا دوسرا بیٹا ملک عمرخان بھی  1933 میں انگریز کےخلاف گندھاب کےعلاقہ بادی سیاہ میں لڑتےہوئے شہید ہوئے۔انکی شہادت کےبعد کوڈاخیل دستہ کی سربراہی انکے بھائی اور میراجان سیال کے والد محترم  ملک میاں جان کوڈاخیل کرنے لگے۔

ملک ایمل مومند کےساتھ نجات خان کی انٹرویو کا احوال۔

بھائی کی شہادت کےوقت ملک میاں جان کوڈاخیل نے مجاہدین سےکہا کہ کوئی بھی جنگ چھوڑ کرہمارےساتھ نہیں جائیگا کیونکہ آپکے جانے سےمحاذ کمزورہوجائیگا۔اس نےمزید کہا کہ ہم اپنےشہید بھائی کو دفن کرکےواپس جنگ میں شامل ہوجائینگے اور بعد میں میاں جان صاحب نےایساکیابھی۔

میراجان سیال مہمند کےپوتے اور ملک بازوان مہمند کےپڑپوتے ملک ایمل خان کوڈاخیل مہمند کےساتھ مصنف ہذاہ(نجات خان مہمند) کی ایک نشست ہوئی۔ ملک ایمل خان نےبتایاکہ غازی نجم الدین ہمارے ہاں بہت زیادہ آیاکرتےتھے۔جبکہ ہمارے بڑے انکےبیعت بھی تھے۔ملک ایمل مہمند کےمطابق غازی نجم الدین المعروف ھڈہ ملا انکےہاں کئی کئی دنوں تک قیام فرماتےتھے۔ ملک ایمل کہتاہےکہ جب بھی کافروں کےخلاف لشکر کی تیاری کی ضرورت پڑتی تھی تو کوڈاخیل قوم میں ہم اور غازی ماصل بابا اپنے اپنے خیرخواہ اور چھوٹے چھوٹے سرداروں کو پیغامات بھیج کر جمع کرتےتھے اور پھر ایک بڑالشکربناکر ھڈہ ملا کی خدمت میں پیش کیاکرتےتھے جبکہ ان گھرانوں کے بزرگ اپنے اپنے دستوں کی سربراہی بھی کیاکرتےتھےاور لشکر میں لڑتےتھے۔

اسی طرح ھڈہ ملا کی رحلت کےبعد انکےمرید حاجی صاحب ترنگزئی کےساتھ بھی ان دوگھرانوں کےلوگوں نےہرمہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے۔ھڈہ ملا کےدوسرےمرید امیرمحمد المعروف چکنور ملا کےساتھ بھی یہی گھرانےقدم بہ قدم رہے۔

ملک ایمل کہتےہیں کہ ایک دفعہ کوڈاخیل میں ھڈہ ملا اپنےدیگر مریدوں چکنور ملا اور علینگارفقیر(علینگافقیر کےمرشد جناب ولی احمد جان المعروف ملا سنڈاکی تھے اور ملا سنڈاکی کےمرشد ھڈہ ملا تھے) کےساتھ ہمارےہاں قیام فرماتھے۔اس دوران ہمارےبزرگوں نےاس علاقہ میں ایک کنواں کھودنے کی ضرورت محسوس کی کیونکہ اس وقت علاقہ میں پانی ناپید ہوچکاتھاجبکہ کنواں کھودنابھی مشکل تھا کیونکہ پورے مہمند وطن میں پانی بہت زیادہ گہرائی میں پایاجاتاہے۔اب پورے مہمند وطن میں یہی کھودنےوالا پہلا کنواں بھی تصورکیاجاتاہے کیونکہ اس سےپہلے یہاں کوئی کنواں کسی نےنہیں کھوداتھا۔جس کی اصل وجہ یہاں چشموں کی بہتات تھی مگر بعد میں ان چشموں میں کافی حد تک کمی آئی تھیں۔جب کنواں کھودنےکا ارادہ کیاگیاتو ھڈہ ملا سےمشورہ کیاگیا۔ ھڈہ ملا نےکنویں کی کھودائی کی نشان دہی کی اور پھر سب سےپہلے برکت کی غرض سےاپنے ہاتھوں سےاسکا افتتاح کرکے کھودائی شروع کی اور ساتھ ہی انکے مرید امیر محمد المعروف چکنور ملا اور علینگارفقیر نےبھی برکت کی غرض سےاپنا حصہ ڈالا۔ ملک ایمل کہتاہے کہ آٹھ یا نو میٹر گہرائی کےبعد پانی ابل پڑاجو ایک خیران کن بات تھی کہ جہاں اسی اور نوے گزکی گہرائی میں پانی ملنےکےاثار بہت کم ملتےہیں وہاں چند گزکی کدھائی کےبعد پانی ابلناایک خیران کن بات تھی۔ملک ایمل کےمطابق یہی کنواں سو سال بعد اب بھی  ویسے کےویسے ہی جاری و ساری ہے۔ یہی ہوتی ہیں ان اولیاء اللہ کے خرق عادت کام جسکو کرامات کہتےہیں۔ اور ان اولیاءاللہ کی کرامات برحق ہیں۔ غازی نجم الدین المعروف ھڈہ ملا اپنے عمر کےآخری حصہ میں ولایت کے غوثیت کے درجہ پر فائز ہوچکے تھے۔ملک ایمل خان کہتےہیں کہ ھڈہ ملا کےانتقال کےبعد انکی زیارت کے پاس میراجان سیال مہمند نےانکی نوادرات کو اکھٹاکرکے وہاں ایک چھوٹا سے میوزیم بناکر اس میں  ھڈہ ملا کی استعمال کی چیزیں رکھی تھیں۔اب بھی نشانی کے طور پرھڈہ ملا کی عصاء ملک ایمل خان مہمند کےہاں اپنی صحیح خالت میں پڑی ہے۔

اسکےساتھ مہمند قوم کےدیگر قبیلوں کےساتھ ساتھ بائیزئی کے کوڈاخیل سےیہی دو گھرانےمہمند قوم کی سربراہی کرنےوالے لوگوں میں شامل رہے۔یاد رہے کہ 1912 اور 1913 میں مہمند قوم کی ناوگئی خان محمد علی جان المعروف مندالی جان کی مظالم کے خلاف مہمند قوم کی لشکر کشی میں غازی ماصل بابا اور ملک بازوان پیش پیش تھے۔غازی ماصل بابا کو ناوگئی لشکرکشی کےصلہ میں افغانستان کےامیرحبیب اللہ کی طرف سے دو سو روپے انعام بھی ملا۔

مہمند قبائل


ملک بازوان کا پوتا اور میاجان غازی کا بیٹامیراجان سیال مہمند بہت زیادہ کتابوں کےمصنف رہے اور جلا آباد سےایک رسالہ بھی نکالتے تھے۔انکی کتابوں میں مشہور ”د خیبر اتل۔ایمل خان مہمند“ اور ”د مومندو غزاگانے“ شامل ہیں۔ آخرالذکر کتاب میں میراجان سیال نےمہمند قوم کی انگریز کےخلاف جنگوں میں شامل ہوکر اپنی رودادیں لکھیں ہیں۔ میراجان سیال کسی بھی جنگ میں پہلی دفعہ 1927 کو کڑپہ جنگ میں شامل ہوئے جبکہ انگریز کی مہمند قوم کےخلاف 1935 میں آخری لڑی جانے والی جنگ میں حصہ لیکر ان دو گھرانوں نے کوڈاخیل میں گائڈ پلٹن کےتمام کےتمام انگریز فوج کےسپاہیوں کےساتھ جوانمردی کےساتھ لڑک ان کوموت کےگھاٹ اتاردیا۔اس جنگ میں گائڈ پلٹن کا کوئی بھی سپاہی زندہ بچ کےنہ نکلا۔

0 comments
3 likes
Prev post: بچپن یعنی نوخیز جوانی کی میٹھی یادیں۔اسلامیہ کالج کا ہاسٹل قیوم منزل۔Next post: غازی نجم الدین المعروف ھڈےملا کےلگائےگئےسایہ دار اور پھل داردرختوں میں سےسنڈاکئ ملا، صندل باباجی اور علینگار فقیر کےکارنامے اور اسلام کےلئےخدمات پر ایک نظر۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *