غازی نجم الدین المعروف ھڈےملا کےلگائےگئےسایہ دار اور پھل داردرختوں میں سےسنڈاکئ ملا، صندل باباجی اور علینگار فقیر کےکارنامے اور اسلام کےلئےخدمات پر ایک نظر۔


(
نجات خان کی تصنیف ؛یاغستان کا غازی سےایک اقتباس)

شیخ ولی احمدجان؛ آپ سنڈاکی ملا کےنام سےمعروف و مشہورتھے۔ آپ سوات کےعلاقہ  سنڈاکئ چکیسر( شانگلہ) میں  1831 کو پیداہوئے۔جبکہ کچھ اقوال میں آپکی پیدائش کی سال 1820بتائی جاتی ہیں۔آپ  کاتعلق اخوند سالاک کی اولاد سےہے۔ابتدائی تعلیم اپنےعلاقہ میں حاصل کرنےکےبعددیوبند چلےگئے۔وہاں سےفراغت ملنےکےبعد اپنےعلاقہ میں آئے۔چونکہ اس وقت غوث الزمان سوات باباجی کا انتقال ہوچکاتھا اور انکی جگہ پورے سوات اور قبائل کی سربراہی غوث دوراں غازی نجم الدین المعروف ھڈہ ملا کررہےتھے۔سوات باباجی کےبیٹوں میاں عبدالخنان اور میاں عبدالخالق کےاستاد اور سوات باباجی کےمریدحاجی محمد ابراھیم مہمند المعروف حاجی صاحب بیدمنئی کےساتھ اخترام اور عقیدت کی وجہ سےسوات باباجی کےپوتے میاں عبدالودود(والی سوات) بھی ھڈہ ملا کی ہربات پرسرنگوں ہوتےتھے اور ھڈہ ملا کےکہنےپر کسی بھی استعماری قوت کےخلاف کھڑےہونےسےدریغ نہیں کیاکرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اس خطہ میں صرف ھڈہ ملا کا طوطی بولتاتھا۔ سوات باباجی کی رخلت کےبعد شیخ ولی احمد جان المعروف سنڈاکی ملا نے اس وجہ سے ھڈہ ملا کی بیعت کی۔آپ ھڈہ ملا سےقادریہ مبارک میں بیعت تھے۔ سنڈاکی ملا کو اپنے مرشد ھڈہ ملا کی صحبت بھی آسانی سےملتی تھی کیونکہ ھڈہ ملاصاحب سوات باباجی کی زیارت کےلئے اکثرجایاکرتےتھے اور پھر کئی دنوں تک سوات میں قیام پذیرہوا کرتےتھے۔

طریقت کےماہتاب شیخ المشائخ سیدمحمود المعروف صندل باباجی۔

ھڈہ ملا کےکہنےپرسنڈاکی ملا دیرکےپہلےنواب شریف خان کےخلاف کھڑے بھی ہوئےتھے۔لیکن 1902میں دیر نواب شریف خان کےبیٹے نواب اورنگزیب کو شکست دیکر سیدعبدالجبارشاہ کوسوات کا حاکم بنایا۔ سیدعبدالجبارشاہ، سیداکبرشاہ کےپوتےتھے جسکو سوات باباجی نے1850 میں بونیرسےسوات کا حکمران بنایاتھا۔ اس کےساتھ ساتھ ملا سنڈاکی نےاپنےمرشد کی طرح سوات میں انگریز کےناک میں دم کررکھاتھا۔آپ ترنگزوباباجی کےساتھ ملکر کئی جنگوں میں انگریزکےخلاف لڑے۔

چونکہ میاں گل عبدالودود ھڈہ ملا کابہت اخترام کرتےتھےاور دیرنواب انگریز کےگن گاتاتھاجبکہ سنڈاکی ملا کی اپرسوات میں کافی اثررسوخ ہونےکی بناپر کینگ میکرکاکرداراداکرتےہوئےایک بہت بڑےجرگہ میں سنڈاکی ملا نے1917 میں میاں عبدالودود کو پکڑی پہناکرسوات کا بادشاہ بنایا۔یوں میاں عبدالودود والی سوات منتخب ہوئے۔شیخ ولی احمد جان نےجب دیکھاکہ والی سوات کی جھکاؤ دن بہ دن انگریز کی طرف بڑھ رہی ہےتو انکےخلاف ہوئے۔اور ساتھ ہی ملا سنڈاکی نےاپنی سلطنت اور شریعت کا اعلان کیا۔والی سوات ان کو کچھ کہہ نہیں سکتےتھےکیونکہ سوات کےسارے لوگ ان کےساتھ تھے۔

جب سنڈاکی ملا اپنےعلاقہ میں کمزورہوگئےتو آپ 1920 کو سوات چھوڑ کر دیر کےعلاقہ کوہان میں چلےگئےاور وہاں 1837 میں انکا انتقال ہوگیا۔

صندل باباجی؛ آپ کا اصل نام سیدمحمود تھا جبکہ صندل کےعلاقہ سےتعلق کی بنا پرآپ صندل باباجی کےنام سےجاننےلگے۔اپ 1881 کودیربالا کےنہاگ درہ کے صندل گاؤں میں پیداہوئے۔آپ کو سنڈاکی ملاکےمریدوں میں بہت عزت و عظمت ملی اور اپنےمرشد سےکافی روحانیت حاصل کی۔صندل باباجی اپنےمرشد سےسلسلہ قادریہ غفوریہ میں بیعت تھے۔آپ  فروری 2016 کو 136سال کی عمر میں انتقال کرگئے-

آپ  مولانا نصیرالدین غورغشتوی کےبھی زیر سایہ رہے۔ اسکے ساتھ اپنےمرشد شیخ ولی احمد المعروف سنڈاکی ملا کی صحبت میں پندرہ سال گزار کرطریقت و سلوک کےتمام مراحل طےکئیے اور اپنےمرشد کی تدفین میں بھی شریک رہے۔آپ کےفرزند ارجمند مولاناسیدفضل ودود آپ کےجانشین اور نگران خانقاہ مقررہوئے۔ مولاناسیدفضل ودود صاحب مفتی اعظم مفتی فرید کےچارسال تک شاگرد رہے۔

علینگارفقیر۔صندل باباجی کےعلاوہ سنڈاکئ ملا کےدوسرےمرید حضرت سید جلال المعروف علینگارفقیر تھے۔آپ سوات کے خوازہ خیلہ میں پیدا ہوئےاور شیخ ولی احمد سےبیعت تھے۔چونکہ سوات کاعلاقہ انگریز کےزیراثرتھااسلئےسیدجلال صاحب نے1906 میں بالائی مہمند کےعلاقہ علینگارکواپنامسکن بنایااور یہاں ایک مسجد بھی بنائی۔اسی طرح آپ علینگارفقیر کےنام سےپہچاننےلگے۔علاقہ مہمند میں آباد ہونےکےبعد آپ لوگوں کی تزکیہ نفس میں لگ گئے اور اسی طرح آپکی شہرت دوردور تک پھیل گئی۔آپ ھڈہ ملا کےدیگرمریدان کےساتھ انگریزکےخلاف ہرکارزارمیں کھڑےرہےاورانگریزنےان کو ایک باغی اورخطرناک کمانڈرجیسےالفاظ سےیادکیاہے۔کیونکہ آپ بنفس نفیس جہاد میں شامل ہوتےتھے۔انگریزکےخلاف 1914 میں چکنورملا،بابڑہ ملا اور سلامپورباچا کےساتھ علینگارفقیر بھی علاقہ مہمند سےشبقدرمیں انگریز قلعہ پرحملہ آورہوئےتھےاورانگریزکوکافی جانی ومالی نقصان پہنچایاتھا۔علینگارفقیر کااثررسوخ پڑانگ غارمہمند کےاتمانخیل سےملاکنڈ کےشموزئی اور رانیزئی تک تھا۔یہی قومیں آپ کی آوازپرلبیک کہہ کرانگریزکےخلاف اٹھ کھڑی ہوتی تھیں۔

علینگارفقیرکو مہمندکےشینواریوں نےساٹھ دڑئی زمین بھی بطورسیرئی دی تھی۔علینگارفقیرکادوسرامسکن باجوڑسلارزوں،گاؤں ملکانہ تھا۔جہاں آپ  1938 کو اس دارِفانی سےکوچ کرگئے اور وہیں پر آپ کی تدفین کی گئی۔

0 comments
5 likes
Prev post: مہمند قوم کےلیجنڈز جو تاریخ کےاوراق سے گم گردئیے گئےہیں۔Next post: مہمند کےبائیزئی کابرف پوش پہاڑوں کےدامن میں واقع جڑوبی درہ جو ایک کامل ولی کا چودہ سال تک مسکن رہاجوانگریزکےخلاف سرگرمیوں کا ایک مضبوط مرکزرہاہے۔

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *