مہمند کےبائیزئی کابرف پوش پہاڑوں کےدامن میں واقع جڑوبی درہ جو ایک کامل ولی کا چودہ سال تک مسکن رہاجوانگریزکےخلاف سرگرمیوں کا ایک مضبوط مرکزرہاہے۔

 

تحریر؛نجات خان مہمند۔

ضلع مہمند کےافغان بارڈر پر واقع جڑوبی درہ کےلئے ہماراسفر شبقدر سے شروع ہوا۔ضلع مہمند کےتحصیل بائیزئی میں واقع جڑوبی درہ تک دو راستوں سےسفر کیا جاسکتا ہے مگر یہ دونوں راستے پھر آگے کوڈاخیل میں مل جاتےہیں۔

صبح دس بجےہم شبقدر سے براستہ گندھاب مامد گٹ کی طرف روانہ ہوئے۔شبقدر سے مامد گٹ اور پھر براستہ ناوا پاس سے غنم شاہ تک یہ سفر 74 کلومیٹربنتاہے۔ مامدگٹ سے غنم شاہ جاتےہوئے پہلے خزینہ پھر چینارے اور آگے غنم شاہ آتاہے۔یہاں سے دائیں طرف ایلہ زائےپہاڑ کےدامن میں واقع میٹئ اور رحمت کورواقع ہے۔مگر ہم سیدھا سڑاخواہ کی طرف چل پڑے۔

جڑوبی درہ کا داخلی راستہ

سڑاخواہ بیدمنئ پاس کےدامن میں آتاہے جبکہ ایلہ زائے پہاڑکےمشرقی سمت ہم پہنچ گئے۔غنم شاہ سےبیدمنئی کا راستہ دس سے پندرہ کلومیٹربنتاہے۔ہمارا منزل ہمارےدائیں طرف ایلہ زائےپہاڑ کے مغربی جانب جاناتھا جبکہ ہم اب اس پہاڑ کےمشرقی سمت میں تھے۔اب بیدمنئی ایک کم اونچائی والی چڑھائی ہے لیکن سڑک کی خالت قدرےاچھی ہے۔

مسجد کےکنڈرات کا نظارہ۔ساتھ چینار کا درخت بھی کھڑا ہے۔

بیدمنئی سےآگےجاکر تورہ خواہ اور شمشاکےقریب وارسک نامی گاؤں پہنچے۔یہاں سےہم کوڈاخیل کےعلاقہ بوہئی میدان پہنچے۔یہاں خویزئی سےبھی ایک سڑک آتی ہے۔کوڈاخیل کےبجائےہم دوبارہ مغرب کی طرف ایک ہموار علاقہ میں پندرہ سےبیس کلومیٹرکےسفر پر بجانب شیندرہ روانہ ہوئے۔

مسجد کا جنوبی حصہ1897

انتہائی مغرب جاکرہمیں پاک افغان بارڈر صاف دکھائی دےرہاتھا مگر یہاں ہم پہلے شمال اور پھر آہستہ آہستہ مشرق کے طرف ایلہ زائے پہاڑ کےدامن کی طرف رواں دواں تھے۔یہ علاقہ چونکہ اس پہاڑ کےدامن میں آتاہے جو انتہائی اونچائی پرواقع ہونےکی وجہ سےیہاں ہروقت بادل رہتےہیں جبکہ اس درہ میں موسم سرما میں کم از کم دو دفعہ برف پڑتی ہے جو درہ کےدامن پر واقع شیندرہ گاؤں تک  برف پرٹی ہے۔جبکہ دسمبر کی آمد آمد میں یہ سارےپہاڑ برف کا ایک سفید چادر اوڑھ لیتےہیں۔اس درہ کو جڑوبی درہ کہتےہیں۔ اب ہم جڑوبی درہ میں انتہائی آخر میں واقع اغز نامی گاؤں کےدامن میں غوث الزمان غازی نجم الدین المعروف ھڈہ ملا کےجائےمسکن کےقریب ہورہےتھے۔آبادی جب ختم ہوئی تو ہم ایک تنگ جگہ پہنچ گئےجہاں علاقہ بہت سرسبز اور چشموں کاپانی فراوانی سےبہہ رہاتھا۔ایک نالہ کےکنارے کنڈرات کی شکل میں ایک آبادی نظر آئی جو غازی نجم الدین کا آج سے ایک سو چالیس سال پہلے مسکن ہواکرتاتھا۔یہ ایک ویران مسجد تھی۔اولیاء اللہ کےمستقر یہی مساجد،خانقاہیں اور چلہ خانےہوتےہیں۔

معلوماتی بوڑد

یہ علاقہ اس وجہ سےتاریخی اہمیت رکھتاہےکہ انگریز کےخلاف Uprising of 1897 یہاں سےغازی نجم الدین نے کی ہدایات پر ہوئی اور آپ خود بھی بنفس نفیس ان جنگوں میں شریک رہے۔یہاں کئی اولیاءاللہ کی آمد اور رہائش ہوئی ہے۔اس علاقہ نےکئی معتبرشخصیات جیسے ملاحمیداللہ المعروف تگاب فقیر، حاجی صاحب ترنگزئی، بابڑہ ملا، حضرت صاحب بتخاک، صوفی عالم گل شینواری اور چنکنور ملا و سلام پورباچا وغیرہ وغیرہ۔یہ سب ھڈہ ملا کےمریدتھے۔اسکے ساتھ ساتھ مہمند کےموسیٰ خیل اور عیسیٰ خیل نے بھی ان اولیاءاللہ کا ہرحد تک ساتھ دیا۔

مسجد کےساتھ دیگرتعمیرات کےکنڈرات کا نظارہ

یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔یہاں چھوٹےچھوٹے درےہیں۔جہاں غازی نجم الدین کی مسجد واقع ہے اس جگہ کو صاحب مبارک(صیب زائے) کہتےہیں۔جب 1897 کی جنگ ہوئی تو غازی نجم الدین یہاں سےباجوڑ اور مہمند کےعلاقہ چمرکنڈ منتقل ہوئےاور وہاں انکی پہلےسےایک مسجد تھی جہاں نجم الدین صاحب نےپھرمسلسل چارسال گزارے۔

اونچائی سےمسجد کا نظارہ

یہاں مسجد اور اسکےساتھ متصل کمرےصرف کنڈر کی شکل میں موجود تھے۔مسجد کےشمال کی جانب تین چار کمروں کےکسی حد تک اونچےویران دیوار ماضی کی کچھ تلاطم خیز واقعات لئے موجود تھے۔مسجد کےاندر محراب کےباالکل قریب ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جو باہر کی طرف ایک کمرے میں کھلتی تھی۔اس سےواضح ہوتاتھا کہ ولی کامل غازی نجم الدین مسجد میں عبادت سےفراغت کےبعد اس کمرے میں چلےجاتے تھےجس کو عمومً چلہ گاہ یا خانقاہ کہتےہیں۔مسجد کو شمال سےرہائشی کمروں کی طرف سےبھی اندرآنے کا ایک دروازہ تھا جبکہ مشرق کی بجائے جنوب سےاندر داخل ہونےکا ایک اور راستہ ہوتاتھامگر یہ راستہ برآمدے کےاندر جاتاتھا۔موجودہ دور میں یہاں ایک گھرقریب ہے جس میں ایک سید خاندان رہتاہے مگر گھرمیں مرد کی غیرموجودگی کی وجہ سےہمیں کسی مقامی بندےسےبات چیت کا کوئی موقع نہ ملا۔ایک مقامی چرواہا نورمحمد بکریاں چراتے ہم نےپایا۔انکو آواز دی اور وہ جٹ سےہمارےپاس آیامگر بیچارے کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ ھڈہ ملا کون تھےکیونکہ وہ ھڈہ ملا کو صرف صاحب مبارک کےنام سےجانتاتھا۔باقی اسکو کچھ بھی علم نہ تھا۔البتہ اس درہ کےہرکونےسےواقف تھا۔اس چرواہےکو بھی اس بات کا علم تھا کہ جب انگریزمسجد کو مسمارکرنےقریب آئے تو شہد کی مکھیوں نےان پر حملہ کیا۔نورمحمد کہہ رہا تھا کہ بارڈر سےافغانستان کی جانب بھی مہمند قوم کےلوگ آباد ہے جبکہ اس ایلہ زائےپہاڑ کے مشرقی طرف رحمت کلے اور میٹئی درہ واقع ہے۔چرواہےکےمطابق ان مشکل کشا پہاڑوں کے درمیان اوپر بھی ایک مزار ہے۔

مسجد سےنیچے چشمہ کا پانی خوض میں جمع ہورہاہے

یہاں عصر کی نماز پڑھنےاور پہاڑوں پر چڑھنےکےعلاوہ قدرتی منرل واٹر خوب پینےکےبعد ہم نےواپسی کا ارادہ کرلیا۔ہم جس راستہ سےآئے تو یہ شبقدر سے یہاں تک تقریباً ایک سو دس سے ایک سو پندرہ کلومیٹربنتاہے لیکن گندھاب سےخاپخ اور براستہ خویزئی یہ سفر 80 سے 85 کلومیٹربنتاہے۔

0 comments
4 likes
Prev post: غازی نجم الدین المعروف ھڈےملا کےلگائےگئےسایہ دار اور پھل داردرختوں میں سےسنڈاکئ ملا، صندل باباجی اور علینگار فقیر کےکارنامے اور اسلام کےلئےخدمات پر ایک نظر۔Next post: مہمند کب پشاورآئے؟ خلیل کون ہیں؟ اور خلیل مہمند کی اصطلاح کیسےزبان زد عام ہوئی؟ ان حقائق سےاب پردہ اٹھاتےہیں

Related posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *